گزشتہ روز برمش یکجہتی کمیٹی کراچی کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مظاہرے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی جس میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ سانحہ ڈنک کے حوالے سے برمش یکجہتی کمیٹی کے فورم میں شامل شرکاء کامطالبہ انتہائی سادہ اور قانونی تھا جس میں کسی قسم کی کوئی اشتعال انگیزی شامل نہیں تھی بلکہ صرف انصاف کے تقاضوں کوپورا کرنے کامطالبہ کیا گیا۔ مظاہرے کی سرپرستی کرنیوالے رہنماؤں کا کہنا تھاکہ سانحہ ڈنک جیسے واقعات کسی صورت قابل قبول نہیں،مکران کے عوام کو مافیاز کے رحم وکرم پر چھوڑدیا گیا ہے۔
برمش بلوچ کو انصاف دی جائے قاتلوں کو سخت سزادیکر ہی امن کا قیام ممکن ہے۔سانحہ ڈنک میں ملوث جرائم پیشہ افراداور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کرکے سخت سزا دی جائے۔ بی بی ملک ناز کو گھر میں گھس کر قتل کرنے اور ان کی چار سالہ معصوم بچی برمش بلوچ کو شدید زخمی کیا گیا جوکہ بلوچی روایات کے منافی ہے۔ مقررین نے کہاکہ معصوم برمش کو انصاف دیاجائے اور ان کی والدہ بی بی ملک ناز کے قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کرکے فوری طور پرسخت سزا دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ برمش بلوچ اور ان کے خاندان کے ساتھ ہم مکمل اظہاریکجہتی کرتے ہیں۔ بلوچ سماج میں اس طرح کے واقعات کسی بھی طور برداشت کے قابل نہیں، سانحہ ڈنک سے قبل بھی تربت کیچ کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
بلوچ خواتین پر مسلح افراد کا حملہ اور چادروچاردیواری کی عزت کو پامال کرنے والوں کو کسی صورت رعایت نہیں دی جاسکتی اس طرح کے واقعات کا پوری بلوچ قوم اور ہر ذی شعور انسان مذمت کرتا ہے۔ تربت سمیت پورے مکران میں منشیات فروش اور جرائم پیشہ افراد کھلے عام مجرمانہ کارروائیاں کرکے عوام کو خوفزدہ ویرغمال بنائے ہوئے ہیں لہٰذا حکومتی اداروں کو ایسے افراد اور گروہوں کے خلاف کھل کر کارروائی کرنی چاہئے جس سے امن کا قیام ممکن ہوسکے۔ مظاہرین نے اعلیٰ حکام اور حکومت بلوچستان سے پُر زور مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ برمش بلوچ کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے ان کی والدہ بی بی ملک ناز کے قاتلوں کو سخت ترین سزا دی جائے اور درپردہ ان مسلح افراد کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کرکے انہیں عبرت کا نشان بنایاجائے تاکہ سانحہ ڈنک جیسے دلسوز واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔برمش یکجہتی کمیٹی کراچی کے ان مطالبات کے سیاق وسباق کاجائزہ لیاجائے۔
تو آج بھی بلوچ عوام صرف امن چاہتے ہیں اور غنڈہ گرد عناصر کو معاشرے سے باہر نکالنے کا مطالبہ کررہے ہیں حالانکہ فرنٹ لائن پر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کو ہونا چاہئے تھا۔افسوس کہ انہوں نے اس اہم مسئلہ پر خاص کردار ادا نہیں کیا محض بیانات اور یکجہتی پر ہی اکتفا کیا حالانکہ بہترین سماج اور معاشرے کی تشکیل میں سیاسی جماعتوں کاکلیدی کردار ہوتا ہے بدقسمتی سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چند جرائم پیشہ افراد کے سامنے آج قوم پرست جماعتیں بے بس دکھائی دے رہی ہیں جوکہ مستقبل میں قوم پرست جماعتوں کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔
اس لئے وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ بلوچستان کی نہ صرف قوم پرست بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کوآگے بڑھنا ہوگا چونکہ اس طرح کے واقعات پورے معاشرے کیلئے ناسور ثابت ہوتے ہیں جس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بلوچستان کی روایات کی مثال دی جاتی تھی آج حالات نے اسے ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے جس سے سیاسی جماعتیں بری الذمہ نہیں ہوسکتیں۔ امید ہے کہ قوم پرست جماعتیں برمش اور اس کی شہید والدہ کو انصاف دلانے کیلئے کردار ادا کرینگی وگرنہ بہت سے سوالات ان کی سیاست پر اٹھائے جائینگے۔