حکومت پاکستان نے قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال2019-20 پیش کردیا ہے جس میں بتایا گیا کہ حکومت نے 5 ہزارارب روپے کے قرضے واپس کیے ہیں اور آئندہ سال تین ہزار ارب واپس کیے جائیں گے۔رواں سال کے پہلے 9ماہ میں بیرونی قرضوں میں 3ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ نے قومی اقتصادی سروے پیش کیا جس میں بتایا کہ حکومت نے اپنے اخراجات کم کرکے عوام کو ریلیف دینے کی پالیسی اپنائی جو کافی حد تک کامیاب رہی۔اقتصادی سروے کے مطابق وفاقی حکومت نے بجٹ خسارے پرقابو پانے کیلئے2080 ارب روپے کا قرض لیا۔
مارچ2020 کے آخرمیں مقامی قرض22 ہزار478ارب روپے رہا۔ جولائی2019 سے مارچ2020 کے دوران حکومتی آمدنی میں 30اعشاریہ9 فیصد اضافہ ہوا۔ مجموعی ترقیاتی اخراجات میں 9ماہ کے دوران24اعشاریہ9فیصداضافہ ہوا۔مجموعی اخراجات میں 15اعشاریہ8فیصداضافہ ہوا۔ پہلے10ماہ کے دوران100انڈیکس میں اعشاریہ6ایک فیصد اضافہ ہوا۔ جولائی سے اپریل کے دوران مہنگائی کی شرح11اعشاریہ2 فیصد رہی۔رواں سال جنوری میں مہنگائی کی شرح14اعشاریہ6 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ اپریل میں مہنگائی کی شرح8 اعشاریہ5 فیصدتک گرگئی۔
جولائی سے اپریل کے دوران برآمدات میں 2اعشاریہ4فیصد کمی ہوئی۔اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال کے10ماہ میں 19اعشاریہ7 ارب ڈالرکی برآمدات ہوئیں اور درآمدات میں 16 اعشاریہ9 فیصد کمی ہوئی اور مجموعی طور پر ایک ارب ڈالرکی درآمدات کی گئیں۔رواں مالی سال کے پہلے10ماہ میں ترسیلات زرمیں 5اعشاریہ 5 فیصداضافہ ہوا اور 18اعشاریہ8ارب ڈالرکی ترسیلات زرآئیں۔ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ریکارڈ73اعشاریہ ایک فیصد کمی ہوئی۔جولائی2019 سے مارچ2020 کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا ایک اعشاریہ ایک فیصد رہ گیا۔
اقتصادی سروے کے مطابق مکمل لاک ڈاؤن کی صورت میں ایک کروڑ85لاکھ افراد بیروزگارہوں گے۔ درمیانے لاک ڈاؤن سے ایک کروڑ23لاکھ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں جب کہ نرم لاک ڈاؤن سے 14لاکھ افرادکی نوکریاں ختم ہوں گی۔کورونا سے پہلے معیشت 3 فیصد کی شرح سے بڑھنے کی توقع تھی لیکن پاکستانی معیشت کو3 ہزار ارب روپے کانقصان پہنچا اور مستحکم ہوتی ہوئی معیشت کو دھچکا لگا۔مشیرخزانہ کے مطابق معاشی بحران اس حکومت کو ورثے میں ملا اور ماضی میں ہمارے اخراجات آمدنی سے زیادہ ہوتے تھے، ہم نے حکومتی اخراجات پر قابو پالیا۔
ہم نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے۔بہرحال ملکی معیشت کادارومدار اب بھی قرضوں پر ہے معیشت کی بری صورتحال کو محض کرونا وائرس سے نتھی نہیں کیا جاسکتا،مسلسل قرض لینے کی وجہ سے مالی بوجھ بڑھتا ہی گیا ہے جبکہ حالیہ قرضوں کی رقم بھی ادا کرنی ہے لہٰذا یہ مالی بوجھ برقرار رہے گا جب تک قرضوں سے جان نہیں چھڑایا جاتا، تب تک معیشت کی بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی۔ بدقسمتی سے اپنے وسائل اور پیداوار پرتوجہ نہیں دی گئی اس لئے معیشت کے پہیہ کو چلانے کیلئے قرضوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ دوسری جانب صرف ماضی کی پالیسیوں کو ہی غلط قرار دینا اور ساراملبہ پچھلی حکومتوں پر ڈالنا بھی ٹھیک نہیں۔
چونکہ ماضی کی حکومت میں بھی موجودہ مشیرخزانہ ہی عہدے پر فائز تھے تو وہ کونسی ناقص معاشی حکمت عملی تھی جس کی وجہ سے معیشت میں بہتری نہیں آئی۔حکومتی دعوؤں کے مطابق البتہ بجٹ ہر وقت عوام دوست رہا ہے مگر جیسے ہی بجٹ پیش ہوتا ہے اس کے خدوخال بحرانات کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ملکی معیشت کو صحیح سمت لے جانے کیلئے پالیسیاں اب بھی ابہام اور غیر واضح ہیں جس کی مثال قومی منافع بخش اداروں کی بدحالی ہے۔ آج اسٹیل مل اور پی آئی اے کی صورتحال سامنے ہے جو تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں جبکہ دیگر سیکٹرز میں بھی کوئی خاص بہتری نہیں تاوقتیکہ قرضوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کیاجاتا۔
اور منافع بخش اداروں اور اپنی صنعت کو پروان چڑھانے کیلئے سرمایہ کاری نہیں کی جاتی تب تک ملکی معیشت میں بہتری محض خواب ہی رہے گی اور عوام پر مہنگائی اور بحرانات کا بوجھ لٹکتا ہی رہے گا۔ اب تو صورتحال مزید گھمبیر شکل اختیار کرے گی جب بڑے پیمانے پر لوگ بیروزگار ہونگے۔ کرونا وائرس کی وباء اب بھی ملک میں موجود ہے جبکہ دیگر ممالک نے اسے شکست دی ہے مگر بدقسمتی سے ہم آنے والے مزید چند ماہ کے دوران کرونا وائرس سے ہونے والے نقصانات پر نظر لگائے بیٹھے ہیں۔بہرحال حکمرانی اور پالیسیاں ہی نتائج برآمد کرتے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دن کتنے بہتر ہونگے یا پھر یہی بحرانات اور چیلنجز موجود رہینگے۔