|

وقتِ اشاعت :   June 14 – 2020

سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، ماہرین قانون اور ماہرین علم و ادب کی جانب سے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق سماعت کے دوران حکومتی وکیل فروغ نسیم کے ان بیانات کی مذمت کی گئی ہے، جس میں انہوں نے غیر آئینی، عورت بیزار اور صنفی امتیاز پر مبنی الفاظ استعمال کیے ہیں۔

سول سوسائٹی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق: ‘جب عدالت عظمیٰ میں فروغ نسیم سے استفسار کیا گیا کہ وہ کس قانون کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے، جو کہ ایک ٹیکس دہندہ شہری بھی ہیں، نام پر موجود اثاثوں کو ان کی ذمہ داری قرار دے رہے ہیں تو ان کی جانب سے کسی قانونی دلیل کی بجائے قرآن کی آیات کا سہارا لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت کوئی خاتون آزاد قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی قانونی شواہد پیش نہیں کیے اور نہ ہی اپنا بیان واپس لیا۔’

سول سوسائٹی کی جانب سے اسلام آباد میں جاری کردہ بیان میں فروغ نسیم کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے ‘قرآنی آیات کی من مانی تشریح، سیاق و سباق کے بغیر اور غلط ترجمے کے ساتھ ایسی دلیل کے طور پر استعمال’ قرار دیا گیا جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سول سوسائٹی کی جن تنظیموں اور کارکنوں نے اس بیان کی حمایت کی ہے ان میں تحریک نسواں، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، شیما کرمانی، حارث خلیق، طاہرہ عبداللہ اور بےنظیر جتوئی شامل ہیں۔

انگریزی زبان میں جاری اس بیان کے مطابق: ‘فروغ نسیم کی جانب سے جس قرآنی آیت کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ خواتین کی قانونی خود مختاری کو نہ محدود کرتی ہے اور نہ ہی اسے ختم کرتی ہے۔ تمام اسلامی مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ خواتین اپنے مالی اور معاشی معاملات پر قانونی عملداری رکھتی ہیں۔’

ہے، وہ اپنی دولت اور جائیداد پر مکمل آزادانہ حق رکھتی ہے اور ضرورت پڑنے پر اپنے شوہر کے خلاف قانونی کارروائی بھی کر سکتی ہے۔’

بیان کے مطابق کوئی بھی قانونی ماہر چہ جائیکہ سپریم کورٹ کا وکیل جو کہ حکومت کی نمائندگی کر رہا ہو، ان قانونی حقوق سے ناواقف نہیں ہو سکتا اور نہ ہی فقہ سے انجان ہو سکتا ہے۔ ‘فروغ نسیم کیا بھول چکے ہیں کہ غیرمسلم خواتین بھی پاکستان کی شہری ہیں اور ان کو بھی پاکستانی قوانین اور آئین کے تحت حقوق حاصل ہیں۔ ان کی جانب سے سپریم کورٹ میں دیے جانے والے ان دلائل کی کوئی قانونی یا مذہبی حیثیت نہیں ہے اور یہ سپریم کورٹ کو گمراہ کرکے معاملے کو مشکوک بنانے کی ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔

سول سوسائٹی نے اپنے بیان میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ اگلی سماعت میں فروغ نسیم اپنے ان بے بنیاد اور غیر آئینی بیانات پر عوامی طور پر معافی مانگیں اور سپریم کورٹ میں پاکستان خواتین کو حاصل قانونی اور آئینی حقوق سمیت مالی اور معاشی حقوق کو تسلیم کریں۔

اس بیان پر فروغ نسیم کا ردعمل حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ دستیاب نہیں تھے۔