وقت پڑنے پر فیصلوں کا ٹالنا قوموں کو ہلاک کردیتا ہے۔ یہ کہاوت تو ہر کوئی جانتا ہے ”آج کا کام کل پر مت چھوڑو“۔ حالیہ وباء نے ہمارے ملک، معیشت، ریاستی اداروں کو گمبھیر مسائل سے دوچار کردیا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ ہماری قوت فیصلہ کے لیے امتحان بن کر آیا ہے۔ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے پہلے بھی ان میں سے کئی مسائل ہمیں درپیش تھے لیکن اس وباء کے بعد تبدیل ہونے والے حالات نے ان مسائل کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیا۔ حکومتی انتظام و انصرام کے نقائص اور خامیاں روزاول سے ہمارے بنیادی مسائل میں شامل رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے روزِ اول ہی سے بدانتظامی ہماری معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
ابتدا کی دنوں میں علم و فہم کی کمی کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن تاریخ پر ایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی دور کی نوکر شاہی کو ”سلطنت کا آہنی شکنجہ“ بالکل درست کہا جاتا تھا۔ یہ سفاک نظام ہمیں جمہوریت کے سیاسی نظام کے ساتھ ورثے میں ملا اور فیصلوں کو ٹالنا اس کی بنیاد میں شامل تھا۔ ”گورا صاحب“ کے متعارف کروائے گئے اس نظام سے ہمارے ”بھورا صاحب“ نے صرف ایک فن میں مہارت حاصل کی کہ جتنا فیصلوں کو لٹکایا جاسکتا ہے لٹکائے رکھو۔ اس میں انہوں نے صرف کرپشن کا اضافہ کیا۔ پہلے یہ غلط کام کرنے کے لیے وصولی کرتے تھے اور اب درست کام کرنے کے لیے بھی اپنی قیمت وصول کرتے ہیں۔ حکومت کاری یا گورننس کو درست کرنا ہے تو اس مرض کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا۔
بالخصوص پاکستان میں جب کسی فیصلے میں تاخیر ہورہی ہو تو اس سے ثابت ہوجاتا ہے کہ معاملہ بہت ضروری ہے۔ ایک امریکی محقق بریڈ اسپنگلر نے حکومتوں کے اس رویے کو بہت اچھے انداز میں واضح کیا ہے۔ وہ کہتا ہے”حالات کو جوں کا توں رکھنے کے لیے فیصلہ سازی میں تاخیر ایک حربہ ہے۔ مشکل عوامی پالیسیوں میں پیدا ہونے والے تنازعات کے وہ فریق جو تبدیلی کے خواہاں نہیں ہوتے یہ حربہ استعمال کرتے ہیں (اگرچہ اس حربے کے استعمال کا پس منظر مختلف بھی ہوسکتا ہے)۔ فیصلہ سازی میں اگر ایسا گروہ شامل ہو جسے تبدیلی مقصود نہیں تو وہ اس عمل کو سست روی کا شکار کردیتا ہے اور اس میں ہی عافیت جانتا ہے۔ اگر وہ فیصلہ سازی میں براہ راست شریک نہ ہو تو دوسروں کو اس عمل میں شریک ہونے سے روک کر تاخیر کرواتے ہیں۔“ اسپنگلر نے اس مسئلے کا جتنی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ امریکا سمیت دیگر ممالک میں یہ معاملہ کتنا پیچیدہ اور سنگین ہے۔
فیصلہ سازی میں تاخیر کا تعلق پارلیمانی جمہوریت سے بھی ہے کیوں کہ اس سیاسی نظام میں پالیسی سازی کا بنیادی مقصد تمام سیاسی اور دیگر شراکت داروں کا زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جمہوریت میں فیصلہ سازی کا عمل ایک ایسے اختیار پر منحصر ہوتا ہے جو ضابطوں اور قاعدوں کا پابند ہے اور اسے ہر صورت قانونی دائرہ میں رہنا ہوتا ہے۔ بادشاہت یا آمریت میں کسی فیصلے کے لیے اتنا تردد نہیں کیا جاتا۔ بادشاہ کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ فیصلہ کرنے سے پہلے مشورہ کرے یا خود ہی جو چاہے حکم جاری کردے۔ جمہوریت کے ساتھ یوں کہ عوامی حمایت کا دعویٰ بھی جڑا ہوتا ہے اس لیے اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی کا عمل طوالت اور سست رفتاری کا شکار ہوجاتا ہے۔ اجلاس پر اجلاس ہوتے ہیں، بحث کی جاتی ہے، ماہرین کی آراء اور رپورٹ پر غور و فکر ہوتا ہے۔
جن لوگوں کو عملی اقدامات کرنا ہوتے ہیں وہ درپیش معاملے کا مطلوبہ علم یا اس کا گہرا فہم نہیں رکھتے اس لیے دوسروں کی آراء پر ان کا انحصار ہوتا ہے۔ ناقدین کی رائے میں بروقت فیصلہ سازی کے لیے جمہوری نظام کئی مرتبہ رکاوٹوں کا باعث بنتا ہے۔ اس نظام میں شہری یا تو لاعلم ہوتے ہیں یا ان کے فکری جھکاؤ اور غلط رائے قائم کرنے کا اتنا امکان ہوتا ہے کہ درست فیصلے پر پہنچنا ہی ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس لیے فیصلہ سازی ماہرین کو کرنی چاہیے۔ بعض طبقات اپنے مفادات کے لیے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت فیصلوں میں تاخیر کرواتے ہیں۔
عدالتوں میں وکیل اور انتخابات میں مخالف سیاست دانوں کے لیے تاخیر ایک آزمودہ حربہ ہے۔ استدلال مرتب کرنے میں اپنی جان کھپانے کے بجائے بعض لوگ اپنے مخالف کو زچ کرنے کے لیے تاخیر کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں تمباکو کی لابی کئی برسوں سے تمباکو کی پیداوار اور سگریٹ کی فروخت کو محدود کرنے کے لیے باقاعدہ کسی نگرانی کے نظام کا قیام روکنے کا یہی طریقہ اختیار کیے ہوئے ہے۔
پاکستان میں کوئی فیصلہ ہونے کے بعد اس پر عمل درآمد رکوانے کے بھی سو طریقے ہیں۔ کسی فیصلے میں تاخیر کے لیے باقاعدہ ایک حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ اس کے لیے ماہرین کی رائے کا جائزہ لینے کا کہا جاتا ہے، متعلقہ حلقوں کے اجلاس بلائے جاتے ہیں، شکست کا یقین ہونے کے باوجود صرف معاملے کو طول دینے کے لیے مقدمے چلائے جاتے ہیں کیوں اس سے کچھ حاصل ہو یا نہ ہو تاخیر ضرور کروالی جاتی ہے۔ کسی بھی معاملے کو طول دینے کی یہ حکمت عملی اس لیے اختیار کی جاتی ہے کہ فیصلہ کرنے والا ادارہ، کمیشن، کمپنی وغیرہ زچ ہو کر قدم پیچھے ہٹالے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پارلیمان ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کے سیاست سے ذاتی مفادات وابستہ ہیں اور ان کی سیاسی جماعتوں کی ڈوریں ایسے خاندانوں کے ہاتھ میں ہیں جو نظام پر اپنی تسلط برقرار رکھنے کے لیے جب چاہیں انھیں استعمال کرتے ہیں۔
شوگر مافیا اس کی بڑی واضح مثال ہے۔ اس گروہ میں اراکینِ پارلیمنٹ اور بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین شامل ہیں جو اپنے گروہی مفاد کو یقینی بنانے کے لیے نظام کو موم کی ناک کی طرح جدھر چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ جب سب کچھ داؤ پر لگ جائے تو فیصلے خریدنے میں کیا ہرج ہے؟ چینی اسکینڈل پر کافی شواہد منظر عام پر آچکے ہیں اور ان کی بنیاد پر بلا امتیاز احتساب ہوسکتا ہے لیکن ہمارے نظام عدل کی رائے اس بارے میں کچھ اور ہی ہے۔ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ موجودہ نظام کس طرح مفادات کے لیے استعمال ہوتا ہے یا فیصلہ سازی کا عمل ہمارے ہاں کس قدر ٹال مٹول کا شکار ہوتا ہے فوری اقدامات کے لیے بروقت فیصلوں کرنے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کی اقتدار میں آنے کا بعد اسی نظام کا حصہ بن گئی ہے اور اسی لیے مفادپرست گروہوں اور کرپشن کو لگام ڈالنے کے لیے اس کی یکسوئی کا عملی مظاہرہ نظر نہیں آتا۔
فیصلہ سازی کے عمل کو تیز تر بنانے کا پہلا قدم یہ ہے کہ اس میں صرف متعلقہ افراد ہی کو شامل کیا جائے۔ مثلاً کابینہ کے اجلاس میں کسی بھی مسئلے پر بات کرنے کے لیے صرف وہی لوگ شریک ہوں جو اس سے براہ راست تعلق رکھتے ہوں اور انھیں درپیش معاملے کا پوری طرح علم بھی ہو۔ جب اعلیٰ سطح پر فیصلہ سازی کا عمل بہتر اور تیز رفتار ہوتا چلا جائے گا تو بیوروکریسی پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہوں گے۔ بلاشبہہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت انتظامی امور ہیں انھیں ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے ان کی تربیت بھی ضروری ہے۔ ہمیں ایسا راستہ اختیار کرنا ہوگا کہ زیادہ کانٹ چھانٹ کے بغیر ہی تبدیلی کے عمل میں تیزی آئے اور یہ سفر ہموار ہوجائے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)