نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے کورونا کیسز بڑھنے اور حفاظتی اقدامات مزید سخت کرنے سے متعلق 20 شہروں کی نشاندہی کردی۔نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے اسلام آباد،کراچی، لاہور،کوئٹہ اور پشاور سمیت ملک کے 20 شہروں میں اسمارٹ لاک ڈاؤن کی سفارش کردی ہے جس سے صوبوں کو آگاہ کردیا گیاہے۔ این سی او سی کے مطابق ملک کے 20 شہروں میں کورونا کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، کوروناکا پھیلاؤ روکنے کیلئے ضروری ہے کہ ان شہروں میں پابندیاں لگا دی جائیں۔
اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کے اسمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی کے اعلان کے بعد این سی او سی نے ملک بھرکے ہاٹ اسپاٹس کا جائزہ لیا۔این سی اوسی کی جانب سے کورونا وائرس ٹریسنگ، ٹیسٹنگ، قرنطینہ (ٹی ٹی کیو) حکمت عملی کے تحت 20 شہروں کی نشاندہی کی گئی جہاں کورونا کے حفاظتی اقدامات میں مزید سختی کی جائے گی۔ان میں اسلام آباد، کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، گجرانوالہ، سوات، حیدرآباد، سکھر اور سیالکوٹ شامل ہیں۔کورونا کے ہاٹ اسپاٹس میں گجرات، گھوٹکی، لاڑکانہ، خیرپور، ڈی جی خان، مالاکنڈ اور مردان بھی شامل ہیں۔
اعلامیے کے مطابق ٹی ٹی کیو حکمت عملی بڑھتے کیسز والے علاقوں کی نشاندہی کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔واضح رہے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے بنائے جانے والے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے سربراہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر ہیں۔گزشتہ روز بھی اسد عمر کا کہنا تھا کہ حفاظتی اقدامات سے کورونا پر قابو پایا جاسکتا ہے، موجودہ صورتحال میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی تو کورونا کیسز کی تعداد 3 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جون کے آخر تک کورونا مریضوں کی تعداد 3 لاکھ تک پہنچنے کا خدشہ ہے اور موجودہ صورتحال برقرار رہی تو جولائی کے آخر تک کورونا کیسز میں 8 سے 10 گنا تک اضافہ یعنی مریضوں کی تعداد 10 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
کورنا وائرس کے پاکستان میں داخل ہونے سے قبل ہی ان خدشات کا اظہار کیا گیاتھا کہ ایک جامع حکمت عملی اپناتے ہوئے کورونا وائرس کو روکنے کیلئے تمام صوبوں کو اعتماد میں لیاجائے۔سب سے پہلے تو تفتان میں ہزاروں زائرین کی آمد کاسلسلہ پہلے سے جاری تھا اس لئے وہاں پر ٹیسٹنگ اور کورنٹائن کے حوالے سے تمام تروسائل لگائے جاتے تاکہ جن افرادمیں وائرس کی تشخیص ہوتی تو انہیں وہیں پر 14روز کے لیے قرنطینہ میں رکھا جاتا، بعداز اں انہیں ان کے صوبوں اور شہروں میں اسپیشل بس یا ائیرسروس کے ذریعے منتقل کیاجاتا مگر اتنی لاپرواہی برتی گئی کہ جس پر افسوس ہی کیاجاسکتا ہے۔
کسی نے بھی اس جانب توجہ نہیں دی اور نہ ہی ایک پلان مرتب کیاگیا تاکہ وفاق سمیت تمام صوبے ملکر تفتان میں ہی اس وباء کو بڑے پیمانے پر پھیلنے سے روک لیتے۔ بہرحال بات یہاں نہیں رکتی تعجب اس وقت ہوا جب انٹرنیشنل پروازوں سے آنے والے مسافروں کو جب اسکریننگ کے بعد روانہ کیا گیا تو ان میں بھی بعض کیسز سامنے آئے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہاں پر بھی کوئی خاص بندوبست نہیں تھی، پھر سونے پہ سہاگہ بیرونی ممالک سے لوگوں کی بڑی تعداد کو آنے کی اجازت دی گئی جن میں چین کے باشندے بھی شامل تھے حالانکہ اس وباء کے دوران پوری دنیا ہائی الرٹ تھی اور اپنی تمام سرحدوں کو سیل کر دیا تھااور آمد و رفت کے ہرقسم کے ذرائع پر انتہائی سختی کردی گئی تھی جبکہ شہریوں کو گھروں کے اندر محدود رکھنے کیلئے سخت لاک ڈاؤن کیا گیا تھا۔
چونکہ انہیں اس بات کا اندازہ تھا کہ ذرا سی لاپرواہی سے پورا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ جہاں پر کورونا وائرس سے زیادہ اموات اور کیسز سامنے آئے اب وہاں پر لاک ڈاؤن کو ختم کیاجارہا ہے جبکہ معمولات زندگی سمیت معاشی سرگرمیاں بھی بحال کی جارہی ہیں مگر ہمارے ہاں سب سے بڑی غلطی حکومت نے کی،تفتان کے بعد تبلیغی اجتماع کا ہونا، پھر اس کے بعد فرقہ وارانہ مسئلہ پر سیاست کی گئی، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان لاک ڈاؤن کے مسئلہ کو لیکر سیاست کی گئی،پھر کس طرح سے عوام کو اس وباء کے پھیلاؤ کا ذمہ دارٹھہرایاجاسکتا ہے۔
حکومت جب اپنی ذمہ داری پوری طرح سے ادا نہیں کرتی تو اس کا ملبہ عوام پر ڈالنا زیادتی ہے اب تک ہمارے ہاں لاک ڈاؤن اور وائرس کی روک تھام کے حوالے سے کوئی بھی پالیسی وضع نہیں کی گئی کہ آگے کیا کرنا ہے،کس طرح سے وباء کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھانے ہیں سب مبہم ہے۔ تضادات کی موجودگی میں لاک ڈاؤن اور وباء کا مسئلہ چلتا رہے گا اگر اول روز سے ہی وباء کو روکنے اور لاک ڈاؤن ایک ہی بار سخت کرنے کے حوالے سے پالیسی اپنائی جاتی تو صورتحال مختلف ہوتی مگر بدقسمتی سے اب بھی کوروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور لاک ڈاؤن کے متعلق اقدامات تسلی بخش دکھائی نہیں دے رہے۔
جب تک وفاق اور صوبائی حکومتیں ملکر ایک ہی بار فیصلہ نہیں کرینگی تو مسئلہ گھمبیر ہوتا جائے گا اور ملکی باشندوں کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی روزگار کے سلسلے میں پریشانیوں کا سامنا کرناپڑے گا۔خدارا عوام پر ترس کھاتے ہوئے مشترکہ حکمت عملی اور ہم آہنگی کے ساتھ فیصلہ کیاجائے تاکہ وباء کے پھیلاؤ کو روکنے کے ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کامسئلہ بھی حل ہوجائے اورعوام کو بھی ذہنی کوفت سے نجات ملے۔