|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2020

ضلع کیچ میں حالیہ دو واقعات کے دوران دوخواتین کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ بلیدہ کے علاقے ڈنک میں مسلح افراد ایک گھر میں داخل ہوئے اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ملک ناز بی بی شہید جبکہ ان کی کمسن بچی برمش شدید زخمی ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد بلوچستان سمیت کراچی میں سخت احتجاجی ردِعمل دیکھنے کو ملا اور جسٹس فاربرمش کے حوالے سے مہم چلائی گئی اور مطالبہ کیاگیا کہ واقعہ میں ملوث ملزمان اور ان کے سرغنہ کو گرفتار کرکے سخت سزادی جائے۔
اس سانحہ سے بلوچوں میں شدید غم وغصہ دیکھنے کو ملا کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا ایک الگ ہی واقعہ ہے جوبلوچ روایات کے بالکل منافی ہے۔ سانحہ ڈنک کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے مذمت کی گئی اوران کے کارکنان احتجاج میں شریک بھی ہوئے۔
اس ردعمل کو دیکھتے ہوئے امید کی جارہی تھی کہ ملوث ملزمان کو سخت سزا دی جائے گی بلکہ جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی کرتے ہوئے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی مگر افسوس کہ گزشتہ روز ضلع کیچ کی تحصیل تمپ کے علاقے دازن میں رات کی تاریکی میں مسلح افراد ایک گھر میں داخل ہوتے ہیں اور کلثوم بی بی خاتون کو بہت ہی بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے ان کے گھر سے قیمتی زیورات سمیت دیگرنقدی لیکر فرار ہوجاتے ہیں۔
کلثوم بی بی چاربچوں کی ماں تھی،انکے شوہر کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ وہ خلیج میں روزگار سے وابستہ ہیں یقینا یہ خبر ان کیلئے ایک بہت بڑے صدمہ سے کم نہیں کہ ان کے معصوم بچوں کے سامنے ان کی اہلیہ کو اس قدر بیدردی سے چھری کے وار کے ذریعے ذبح کیا گیاجس سے انسانیت بھی کانپ اٹھتی ہے۔افسوس کہ ملک ناز کے قتل پر جو ردِعمل پورے ملک سے آنی چاہئے تھی وہ نہیں آیا اور نہ ہی اس واقعہ کو دیگر سانحات کی طرح رپورٹ کیاگیا جس طرح پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بناکر قتل کیا جاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ دیگر صوبوں کی سیاسی وسول سوسائٹی بھی اس معاملے پرخاموش دکھائی دے رہی ہے۔ اب کلثوم بی بی کے قتل نے پھر بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے کہ مکران میں مسلح جتھے اس قدر زور آور ہیں کہ جب چاہیں کسی کے گھر کے اندر داخل ہوکر چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کریں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔سب سے پہلی ذمہ داری ریاستی اداروں کی بنتی ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے جان ومال کا تحفظ کریں مگر ان واقعات کے رونما ہونے سے عوام کا اعتماد حکمرانوں سے اٹھتا جارہا ہے۔ مکران میں اس صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو کراچی میں ہونے والے خونخوار واقعات کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں جب 2008ء سے لیکر 2015ء تک کراچی کے بلوچ علاقے مسلح گروہوں کے رحم وکرم پر تھے،
تمام علاقے کالعدم تنظیم اور بدنام زمانہ لیاری امن کمیٹی کے زیر اثر تھے جہاں پر کسی بھی شریف النفس انسان کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ بزرگ،خواتین اور نوجوانوں کے ساتھ جوکچھ امن کمیٹی کے کارندوں نے کیا اسے بیان کرنا مشکل ہے، اس دوران کراچی کے بلوچوں کی ایک پوری نسل تباہ ہوکر رہ گئی یقینا اس کا مقصد سماج کو تباہ وبرباد کرنا تھا اور یہی سب کچھ ہوا،مجبوراََ لوگوں نے عزت نفس بچانے کیلئے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی اور یہ سلسلہ تاریخی طور پر چلتاآرہا ہے کہ چند عرصوں کی خاموشی کے بعد پھر نئے گینگ اور گروہ بنائے جاتے ہیں
تاکہ بلوچ علاقوں میں سیاسی وعلمی ماحول پروان نہ چڑھ سکے۔ مکران میں پہلے سے ہی ڈرگ ولینڈمافیاز کا راج ہے جہاں پر منشیات کو اس قدر عام کیا گیا ہے کہ مکران کی نوجوان نسل اس سے تباہ وبرباد ہوکر رہ گئی ہے اور جب بھی اس کے متعلق لکھااور بولا گیا تو مافیاز کو ناگوار گزرا اور وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے، لوگوں کی آوازدبانے کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انسانیت سے عاری حربے استعمال کئے، مجبوراََ کمزور افراد ان طاقتور گروہوں سے مقابلے کی سکت نہ رکھتے ہوئے خاموشی کو غنیمت سمجھا یا پھر علاقے سے کوچ کرنے کو ترجیح دی۔
جس طرح کراچی کے بلوچ علاقوں کا ذکر کیا گیا اب مکران میں بھی اسی طرح کے حالات بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔ خدارا اس خوفناک کھیل کا خاتمہ کیاجائے اور اس میں سب سے بڑی ذمہ داری بلوچستان کے ان سیاسی جماعتوں کی بنتی ہے جو بلوچ ننگ وناموس کی بات کرتے ہیں،انہیں مرکزی کردارادا کرنا ہوگا وگرنہ مسلح جتھوں سے شاید سیاسی جماعتیں بھی آنے والے وقت میں محفوظ نہیں رہینگی کیونکہ مکافات عمل بھی ایک حقیقت ہے۔
بہرحال ملک ناز بی بی اور کلثوم بی بی کی شہادت کی شفاف تحقیقات اورمعاملات کے محرکات کو آگے لانا ہوگاجو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جس سے وہ بری الذمہ نہیں ہے محض مذمت اور روایات کے منافی بیانات ہی کافی نہیں بلکہ ملزمان کی گرفتاری اور سزاکو یقینی بنایاجائے۔