اسلام آباد:بلوچستان نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کردیا، بدھ کو قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ میں وفاقی حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کرتا ہوں، ہم نے سپیکر، ڈپٹی سپیکر، وزیراعظم اور صدر کے انتخاب کے موقع پر حکومت کا ساتھ دیا،
اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود گزشتہ بجٹ میں ساتھ دیا، مگر وفاقی حکومت نے ہمیں کیا دیا؟، بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا جو گاڑی پر لگا لے اس کی کوئی تلاشی تک نہیں لی جاتی، انہون نے کہاکہ صرف جھنڈا لگانے سے کوئی محب وطن نہیں بن جاتا،ہم نے حکمران جماعت نے ہمارے ساتھ لاپتہ افراد اور بلوچستان کی ترقی کے حوالہ سے معاہدہ کیا، کیا ان معاہدوں پر عمل کیا گیا، آج لاپتہ افراد کا مسئلہ جوں کا توں ہے اور اس معاہدہ پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور یار محمد رند کے دستخط ہیں۔
ہم کوئی کالونی نہیں، ہمیں اس ملک کا شہری سمجھا جائے،ہم نے دو سال انتظار کیا، ابھی بھی وقت مانگا جارہا ہیایک لڑکی جس کا بھائی 4 سال سے لاپتہ ہے اس نے احتجاج کرتے کرتے خود کشی کرلی بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قوی اسمبلی میں بجٹ کے دوران بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ میں ہمیشہ داستان عہد کھل کر کہتا ہوں، بجٹ وزرا دوست، ممبران دوست اور بیورو کریسی دوست ہوسکتا لیکن عوام دوست نہیں بجٹ کے عوام دوست ہونے کے امکانات بھی نہیں ہیں
اس ملک میں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے،یہاں انصاف منڈیوں میں بکتا ہے نجکاری کرکے لوگوں کو بیروزگار کیا جارہا ہے اور انکی آوزاز سننے والا کوئی نہیں سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو ہی بجٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ہم نے اپنے ایوانوں کو ہائیڈ پارک کارنر بنادیا ہے جہاں تجاویز تک نہیں لی جاتیں اگر تجاویز کو حل نہیں کرسکتے تو کم ازکم انکو نوٹ تو کرلیں اگر نوٹ کرنے کے لیے کاغذ اور پنسل نہیں تو ہم چندہ دینے کیلیے تیار ہیں یہ مت کہیں کہ ہم خالی خزانہ ورثہ میں ملا ہے،
ایسے تو بات قائداعظم تک پہنچ جائے گی کیا ہم اگلے بجٹ کی ذمہ ٹڈی دل اور کورونا پر تو نہیں ڈال دینگے حکومت کے متعلقہ منسٹر سے این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی سے متعلق وضاحت چاہوں گا کیا این ایف سی ایواڈ پر نظرثانی 18 ویں ترمیم کو رول بیل کرنے کا حصہ ہے
موجودہ بجٹ میں بلوچستان تو کسی کھاتے میں ہی نہیں ہے بلوچستان کو دس ارب کا پیکج نہیں بلکہ چھوٹا سا پیکٹ دیا گیا ہے چمن سے کراچی تک سڑک کی بنیاد 1973 میں رکھی گئی تھی ساڑھے چار ہزار لوگ اس سڑک پر حادثات کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے ہمیں 6 لین سڑک کی بجائے دو لین سڑک ہی دے دیں گزشتہ پی ایس ڈی پی میں جو رقم اس سڑک کے لیے رکھی گئی تھی
اس کو کورونا یا ٹڈی دل کھا گئی کورونا کے علاج بارے کوئی کہتا ثنامکی کھا لو، کوئی کہتا کلونجی کھا لو، ہم تو سب سجیاں کھا کر تھک گئے ہم نے کورونا کو نظر انداز کرکے تفتان بارڈر ایسے کھولا جیسے ماضی کی طرح ڈالرز آئیں گے تفتان بارڈر کھولنا تھا تو احتیاطی تدابیر اختیار کی جاتیں تفتان بارڈر پر نالائقی سے جو ہلاکتیں ہوئیں انکی ایف آئی آر حکمرانوں کیخلاف کاٹیں جائیں ٹڈی دل سے بلوچستان کے 32 اضلاع متاثر ہیں،
کوئی فصل اور باغ نہیں بچا جب بھی کہا تو جواب آیا کہ اسپرے کے لیے جہاز نہیں ہے وزیراعلی کے لیے تو جہاز لیا جاسکتا لیکن اسپرے کے لیے کیوں نہیں اگر اب بھی اسکا تدارک نہ کیا گیا تو اگر آج اسکی تعداد لاکھوں میں تو اگلے سال کروڑوں میں ہوگی ٹڈی دل کو پھر آپکے عرب دوست بھی نہیں بچا سکیں گے بلوچستان روز اول سے معاہدات کا مارا ہوا ہے نواب اکبر بگٹی کو کہا گیا کہ آپ اسلام آباد آئیں اس ضعیف شخص کو اسلام آباد لانے والے جہاز میں فنی خرابی ہوجاتی ہے بعد میں نواب اکبر بگٹی کو شہید کردیا گیا