کرونا وائرس کی وباء نومبر کے شروع میں چائنا سے ہوتے ہوئے فروری کے وسط میں پاکستان کے دروازے پر آکر دستک دے گئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے لاکھوں لوگوں کو اس وبا نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سارے لوگ اس وبا کی زد میں آکر اپنی زندگی کی بازی ہار گئے، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اپنی زندگیوں کی پرواہ کئے بغیر بہت سی قیمتی جانوں کو بچایا اور اب تک اس پر کام جاری و ساری ہے۔ مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کرونا وائرس سے بچاؤ کے خلاف جنگ جاری ہے تو پھر عید الفطر کے بعد کیوں اس وبا کا پھیلاؤ اور بھی بڑھ گیا ہے؟
وبا بڑھنے کے باوجود بھی کیوں حکومت اپنے اسمارٹ لاک ڈاؤن کے لیے لیے گئے فیصلے پر مکمل عمل درآمد نہیں کر پایا؟ کیوں معیشت کو انسانی جانوں سے زیادہ اہم گردانا گیا اور تمام کے تمام شعبہ جات میں لوگوں کو اسی طرح کام کرنے کا سرکولیشن جاری کیا گیا جیسے کہ عام دنوں میں کیا جاتا ہے (وہ الگ بات ہے کہ انہیں اسٹینڈرڈ آف پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کی گئی۔) سوائے تعلیمی شعبہ جات کے، جو کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا سب سے اہم ترین ستون ہے۔ کرونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے فزیکل اور سوشل ڈسٹینسنگ کے آڈیولوجی پر عمل کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام ممالک میں لاک ڈاؤن کے اعلانات کئے گئے۔
ساتھ ہی ساتھ شعبہ تعلیم کے ہر ادارے (اسکول تا جامعات) کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔ لیکن تعلیمی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے تمام ترقی یافتہ ممالک نے یہ حل بھی نکالا کہ انٹرنیٹ کے استعمال کو بروئے کار لاتے ہوئے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جائے۔ جس کے لیے اْن ممالک میں سب سے پہلے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ کی مفت فراہمی کے ساتھ ساتھ بجلی جیسے بنیادی سہولت کی سستی رسائی کو بھی تمام شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں ہمہ وقت یقینی بنانے کی مکمل منصوبہ بندی کی گئی۔ اس کے بعد تعلیمی اداروں کے عملے کو آن لائن پورٹل پر مشتمل تربیت دی گئی تاکہ آن لائن کلاسز یا نظامِ تعلیم کو کامیابی کے ساتھ عمل میں لایا جا سکے۔
اْن میں پاکستان بھی ایک ملک ہے جہاں شروع دن سے تعلیمی اداروں کو بند رکھا گیا، اور تمام پرائیویٹ اسکولوں، کالجوں اور اب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے بھی آن لائن کلاسز کے لیے جامعات اور کالجوں کو نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا جس پر باقاعدہ طور پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
*کیا پاکستان میں آن لائن کلاسز کا اجراء ممکن ہے؟
پاکستان جہاں آج تک صوبہ بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں کو ایران سے بجلی سپلائی کی جاتی ہے وہاں مستقل بجلی کی دستیابی ہر پاکستانی کے لیے صرف ایک خواب ہے۔ پہلی بار کرونا جیسی وبا کے باعث کراچی شہر (ویسے تو کہا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ پورے پاکستان کے لیے لیا گیا تھا) جو کہ پاکستان کی معیشت کا حب مانا جاتا ہے، وہاں پر بمشکل تین ماہ تک بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا، لیکن یہ عمل مستقل برقرار رکھنا حکومت کے لیے مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا گیا اور اس نے اپنے فیصلے سے انحراف کیا۔ پھر کیسے اْس ملک میں یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ عام علاقوں میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا کر آن لائن کلاسز کے سلسلے کو برقرار رکھا جا سکے گا۔
اور ملک کے تمام طلبہ طالبات یکساں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ جیسی سہولت تک رسائی حاصل کر پائیں گے۔ پرائیویٹ ادارے اس عمل کو یہ جانتے ہوئے بھی عمل کریں گے کہ یہاں بچوں، والدین اور اساتذہ کے لیے آن لائن کلاسز کا اجراء بے حد مشکل عمل ہے، کیوں کہ وہ اپنا کاروباری سسٹم چلانا چاہتے ہیں اور ان اداروں کے زیادہ تر اساتذہ ایسا کرنے پر اس لیے بھی مجبور ہیں کہ وہ بہت ہی معمولی تنخواہیں وصول کر کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہوتے ہیں، نجی اداروں نے والدین کے سامنے اس بات کی یقین دہانی کروانی ہوتی ہے کہ ہم اچھا ڈیلیور کرواتے ہیں۔
اس لیے بر وقت فیس کی ادائیگی والدین کا فرض بنتا ہے۔ اور والدین اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیے پریشان ہیں اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ نجی اداروں کے بتائے ہوئے طریقے ہی مستقبل کے ضامن ہیں۔ لیکن پاکستان میں شروع دن سے ہی عام طبقے کے لوگوں کو کبھی کوالٹی نظامِ تعلیم مہیا نہیں کی گئی، جس کی مثال اْس کا نصاب تعلیم ہے۔ آج اکیسویں صدی میں بھی کمپیوٹر ٹیکنالوجی یہاں اْس طرح عام نہیں جیسے باقی ترقی پسند ممالک میں ہے۔ پاکستان میں اب تک اداروں کے پاس تربیت یافتہ عملہ موجود نہیں ہے۔ اگر اس بات کا ذرا مزید جائزہ لیا جائے تو کتنے فیصد ٹیچرز یا انتظامیہ ہوں گے جو خود نوجوان ہوں اور انہیں ٹیکنالوجی کے استعمال کا مکمل علم ہو؟ یقیناً بہت ہی کم۔
“ہم اس بات سے انکاری نہیں ہیں کہ یہ ایک اچھا عمل ہے جو تمام ٹیچرز اور طلبہ ایک جیسے سافٹ ویئر سے منسلک ہو کر پڑھنے کا عمل جاری رکھیں گے، لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اپنے ٹیچرز اور اس کے علاوہ شاید ہی کچھ اور اساتذہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال باآسانی کر پائیں، وگرنہ یہ سب کے لیے سمجھنا اور استعمال میں لانا آسان نہیں۔”
“جس سماج میں انسان اور جانور اب تک ایک ہی جوہڑ سے پانی پیتے ہوں وہاں انٹرنیٹ یا ٹیکنالوجی جیسی سہولیات کا ہونا مضحکہ خیز بات ہے۔دنیا میں ہر چیز یا سسٹم کو لانچ کرنے سے پہلے اس کی تیاری کی جاتی ہے پھر لانچ کیا جاتا ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ سہولت کچھ نہیں مگر آرڈر اور نصیحت پہلے دیئے جاتے ہیں۔”
*بلوچستان کے طلبہ سراپا احتجاج کیوں؟*
آن لائن کلاسز کے بارے میں معلومات ملتے ہی بلوچستان کے طلبہ وطالبات کا غصہ اس حوالے سے بہت زیادہ زور پکڑ گیا، جس کی سب سے بڑی وجہ انٹرنیٹ جیسی سہولت کی عدم دستیابی کے باعث ان کو اپنے سال کے ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس لیے 7 جون 2020 کو بلوچستان سے کراچی شہر میں آکر بلوچستان اور سندھ کے طلبہ و طالبات نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سامنے اپنی بات رکھنے کے لیے ٹویٹر مہم SayNoToOnlineClasses# ٹرینڈ چلایا، جس کے مثبت اثرات نظر نہ آنے پر انہوں نے اسی شہر سے تین روزہ ٹوکن بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔
کراچی شہر سے اپنے احتجاجی ریکارڈ کو شروع کرنے کے پیچھے اْن کا سب سے بڑا مقصد اسٹریم لائن میڈیا تک اپنی بات پہنچانا تھا۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے طلبہ و طالبات تربت، پسنی، خضدار، کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں پر نکل آئے۔ ان کا موقف ہے کہ آن لائن کلاسز کا یہ سلسلہ فوری بند کر دیا جائے کیونکہ یہ طریقہ کار ان کے لیے کسی طور بھی کار آمد نہیں ہے۔
“ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا آن لائن کلاسز کے لیے لیا گیا فیصلہ سوائے ایک مذاق کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے طلبہ و طالبات اپنے جمہوری حق کو استعمال کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اختیار کر رہے ہیں جو کہ بالکل غلط نہیں ہے۔”
“بلوچستان کے لوگ اکیسویں صدی میں رہتے ہوئے بھی اب تک بارہویں صدی جیسے حالات سے دوچار ہیں اس لیے اگر وہ اِن حالات میں احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے سب سے بنیادی حق تعلیم کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں، جو کہ ایک مثبت عمل ہے۔ دنیا کو اب پتہ ہونا چاہیے کہ یہاں لوگ کیسی زندگی گزار رہے ہیں، کس طرح کے مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، اور وہ اپنے مسائل کا کیا حل چاہتے ہیں۔ ہم طلبہ و طالبات کے اس عمل میں اْن کے ساتھ ہیں۔”
“ایچ ای سی کا فیصلہ بہت ساری دیگر چیزوں کو عیاں کرتا ہے جن میں سے ایک اہم ہم طالب علموں کا معاشی استحصال ہے۔”
“ہائر ایجوکیشن کمیشن نے طلبہ طالبات کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے پر خود مجبور کر دیا ہے، کیونکہ ہم کسی بھی صورت اپنے سال، وقت اور محنت کا ضایع نہیں چاہتے۔”
“بطورِ ٹیچر میں اگر بات کروں تو یہاں بچے ریموٹ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے پر آن لائن کلاسز کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جبکہ میں حب چوکی میں پڑھاتا ہوں اور یہاں کالج تک پہنچتے پہنچتے وہاں موبائل نیٹ ورک کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ پھر ہائر ایجوکیشن کمیشن کیسے اتنا بڑا فیصلہ یہاں کے لوگوں (اساتذہ اور طالب علموں) کی سہولیات کو دیکھے بغیر لینے کا اختیار رکھ سکتا ہے۔ اس صورتِ حال میں احتجاجی عمل ہی واحد حل ہے۔”
طلبہ نے نہ صرف ایچ ای سی کواپنا موقف واضح کرنے کے لیے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی بات کی، بلکہ اس سلسلے میں انہوں نے مستقل احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہائی کورٹ میں ایچ ای سی کے اس فیصلے کے خلاف پٹیشن تک درج کروایا ہے، تاکہ قانونی طور پر اس پر بات کی جائے۔
*بلوچستان کے علاوہ اور کہاں احتجاجی عمل جاری ہیں اور کیوں؟*
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے 2019 کے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد محض 36.18 فیصد ہے، جس میں وہ اعداد بھی شامل ہیں جو کہ 3G یا 4G انٹرنیٹ سے محروم ہیں اور صرف 2.5G یا EDGE پر اکتفا کئے ہوئے ہیں۔ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان کی کْل آبادی جو کہ بائیس کروڑ ہے اْس میں سے صرف سات سے آٹھ کروڑ لوگوں کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہے۔ جس میں سے پانچ کروڑ صرف موبائل سروس کے ذریعے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں جبکہ دو سے تین کروڑ کے درمیان لوگوں کا واسطہ مختلف قسم کے وائی فائی سے ہوتاہے۔
یہاں ہم بات کر رہے ہیں اْن تمام طلبہ طالبات کی جن کے لیے انٹرنیٹ سروس نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن کلاسز تک رسائی ممکن نہیں،خواہ وہ پاکستان کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔ پاکستان میں خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، کشمیر وغیرہ کے کثیر رقبے پر انٹرنیٹ کی سہولت تو اپنی جگہ موبائل فون کو استعمال کرنے کے لیے ہی سگنلز موجود نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے میں آن لائن کلاسز کا اجراء طبقاتی نظامِ تعلیم کو مزید مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔