|

وقتِ اشاعت :   June 27 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت شروع ہوا۔ بی این پی کے رکن میر اکبر مینگل نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ کا نہ سر ہے نہ پیر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں ختم ہوتا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا سندھ نے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا لیکن بلوچستان جو پسماندہ بھی ہے اور ہمارے لوگ صحت، تعلیم، خوراک اور دیگر ضروریات مانگتے ہیں صحت کی سہولیات تو درکنار یہاں تو حالت یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں پینا ڈول کی گولی تک دستیاب نہیں صرف سات فیصد بچے میٹرک تک تعلیم حاصل کرپاتے ہیں۔

ٹڈی دل سے صوبے میں غربت میں مزید اضافہ ہوگا لائیوسٹاک کو بجٹ میں بالکل توجہ نہیں دی گئی جبکہ زرعی شعبے کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے اور کوئی خاطرخواہ پالیسی نظر نہیں آتی انہوں نے کہا کہ بجٹ میں وڈھ سمیت صوبے کے اکثریتی علاقوں کو بالکل ہی نظر انداز کیا گیا ہے اگر لسبیلہ میں سڑکوں کی ضرورت ہے اور اس مقصد کے لئے خطیر رقم رکھی جاتی ہے تو کیا وڈھ اور باقی علاقوں میں سڑکوں کی ضرورت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں خسارہ صوبے کی تاریخ کا سب سے زیادہ خسارہ ہے اس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا انہوں نے کورونا کے تدارک کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو ناکافی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی عدم توجہی ہی کی وجہ سے آج یہ وباء گھر گھر تک پہنچ چکی ہے اور عوام کی صحت و سلامتی داؤ پر لگی ہوئی ہے حکومت کی ترجیحات اسلام آباد تک محدود ہیں۔

وزیر لائیو سٹاک مٹھا خان کاکڑ نے اپوزیشن کے موقف سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ خود اپوزیشن اراکین کو بھی پتہ ہے کہ ماضی میں اگر پچاس کروڑ کا منصوبہ آتا تھا تو بمشکل ایک کروڑ ہی خرچ ہوپاتا جبکہ موجودہ حکومت میں ایسا کچھ نہیں حکومت صوبے کے تمام علاقوں اور تمام اراکین کے حلقوں پر توجہ دے رہی ہے موجودہ حکومت اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج پانچ سال کے بعد آنا شروع ہوں گے جتنا ترقیاتی کام موجودہ دور حکومت میں ہوا ہے اور ہورہا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا جن اپوزیشن اراکین کو موجودہ بجٹ میں فنڈز کم ملے ہیں۔

وہ اطمینان رکھیں آئندہ بجٹ میں ان کے فنڈز میں اضافہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے کورونا کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے باوجود ایک تاریخی اور عوام دوست بجٹ بنا کر پیش کیا ہے جس پر حکومت کو داد دینی چاہئے۔پاکستان نیشنل پارٹی کے سید احسان شاہ نے بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جن مشکل حالات میں بجٹ بنایاگیا ہے ان محرکات کو سامنے رکھا جائے تو یہ ایک بہترین بجٹ ہے کورونا وائرس کی وجہ سے پورے ملک کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے قرضوں میں معیشت جکڑی ہوئی ہے۔

ایسے مشکل حالات میں وزیراعلیٰ جام کمال اور ان کی ٹیم نے بہترین بجٹ بنا کر پیش کیا جس پر میں انہیں اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں متوازن بجٹ بنانے پر محکمہ پی اینڈ ڈی، خزانہ اور دیگر متعلقہ محکموں کے حکام کو بھی داد دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں تعلیم کے لئے 70ارب روپے رکھے گئے ہیں جو مالی سال2019-20ء کے بجٹ کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہیں انہوں نے کہا کہ کلسٹر بجٹ کا غلط استعمال جاری ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے میری اس میں تجویز یہ ہے کہ آڈٹ پیرا ڈالا جائے کہ ایم پی اے کے سرٹیفکیٹ کے بغیر کلسٹر بجٹ کو خرچ نہ کیا جائے۔


انہوں نے تربت یونیورسٹی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک تو اس کی سائیٹ تبدیل کی گئی جس پر ہمیں اعتراض نہیں تاہم اکیڈمک سٹاف کی بھرتیوں میں میرٹ کاخیال نہیں رکھاگیا وہاں تین خاندانوں کا راج ہے یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان ایجوکیشن فاؤنڈیشن جس مقصد کے لئے بنایا گیا اس میں کامیابی نہیں ملی امن وامان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ امن وامان کے لئے44ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

جن ہزاروں آسامیوں کا اعلان کیاگیا ہے ان پر میرٹ کے مطابق تعیناتی ہونی چاہئے انہوں نے تربت سے کراچی تک سولہ چیک پوسٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہر چیک پوسٹ پر لوگوں کو روک کر صرف یہ پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہوں اور کہا جارہے ہواسی طرح گوادر سے کراچی تک چودہ چیک پوسٹ ہیں وہاں بھی یہی صورتحال ہے۔

اس طرح کے اقدامات سے شہریوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے بہتر ہوتا کہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود ہوتے۔سیدا حسان شاہ نے کہاکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان،وزیر خزانہ میر ظہوراحمدبلیدی اور ان کی ٹیم نے مشکل وقت میں متوازن بجٹ پیش کیا بجٹ میں زراعت کیلئے 15ارب روپے رکھے ہیں اب یہ ذمہ داری صوبائی وزیر زراعت کی ہے کہ وہ صوبے کے زمینداروں کو سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں بالخصوص گرین ٹریکٹر سکیم سے صوبے کے زراعت پر اچھے اثرات مرتب ہونگے اسی طرح بجٹ میں فیلڈ اسسٹنٹس کیلئے ایک ہزار موٹرسائیکلوں کیلئے رقم رکھی ہے جو خوش آئند ہے۔

تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ فیلڈ اسسٹنٹ کی ٹریننگ کی جائے تاکہ وہ کاشتکاروں تک صحیح معلومات اوران کی رہنمائی کرسکیں انہوں نے کہاکہ ماہی گیری کیلئے 15کروڑ روپے بجٹ میں رکھے ہیں جس سے ان علاقوں میں ریسٹورنٹس اور رہائشی کمرے تعمیر کئے جائیں گے انہوں نے تجویز دی کہ صوبائی حکومت پرائیویٹ سیکٹر پر توجہ دیں کیونکہ پرائیویٹ سیکٹر میں بہت سے لوگ ماہی گیری میں سرمایہ کاری کرناچاہتے ہیں جس سے یہ شعبہ ترقی کی راہ پرگامزن ہوگا۔

صوبائی وزیر اسد بلوچ نے سانحہ ڈھنک،تمپ اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے طلباء وطالبات پر تشدد کے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ طلباء وطالبات پر تشدد کرکے پولیس کی جانب سے غلط پیغام دیاگیا تاہم وزیراعلیٰ جام کمال خان نے بروقت اور بہتر فیصلہ کیا جس کے تحت پولیس ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اس سے طلباء وطالبات مطمئن ہے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بلوچستان رقبے کے حوالے سے آدھا پاکستان ہے اور پسماندگی بھی زیادہ ہے اگر پورا 465ارب روپے کا بجٹ صرف ترقیاتی عمل پر ہی خرچ کیاجائے تو بھی یہ بجٹ ناکافی ہے۔

بلکہ اتنی رقم سے پورے صوبے میں صرف ایک شعبے کو ترقی نہیں کی جاسکتی انہوں نے کہاکہ یہاں پر بعض ارکان نے کہاکہ ماضی میں اپوزیشن کو حکمرانوں کی جانب سے نظرانداز کیاجاتارہاہے ایسا کرنے والے آج اسمبلی میں نظر نہیں آرہے اگر ہم نے بھی یہ سلسلہ جاری رکھا اور اپوزیشن کونظرانداز کیا تو کل ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوگا موجودہ حکومت ایسی کوئی غلطی نہیں کریگی بلکہ کل یہاں جو لوگ آئیں گے وہ موجودہ حکومت اور وزیراعلیٰ کی تعریف کرینگے بجٹ کو بہتر بنانے کیلئے مزید نظر ثانی کرکے بہتر بجٹ دے سکتے ہیں۔

صوبے کیلئے بہتر فیصلہ ہوگا انہوں نے کہاکہ بلوچستان کی عوام نے ہمیشہ آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے حقوق کیلئے آواز بلند کی کبھی آئین وقانون پامال نہیں کیا لیکن انہیں کبھی ان کا حق نہیں دیا گیا اور جنہوں نے آئین وقانون کی خلاف ورزی کی ان کاکوئی نام نہیں لیتا انہوں نے کہاکہ جو لوگ حق کیلئے آواز بلند کرتے رہے وہ آج تاریخ میں امر ہوگئے اور آئین وقانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کا آج کوئی ذکر نہیں ملتا ہم پارلیمنٹ اور جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔

ہم نے اس کو مضبوط بنا کر لوگوں کو ایک مضبوط پیغام دیناہے کہ ہم مسائل کے حل کیلئے جمہوری راہ اختیار کرسکتے ہیں ہمیں اپنے صوبے کے حقوق کیلئے متحد ہوکر اسلام آباد سے بات کرنا ہوگی وفاق کی بجٹ میں بلوچستان کوکچھ نہیں دیاگیا ہمارے تمام شعبے نظرانداز ہیں ملک کی ترقی کیلئے 800ارب روپے بھلے رکھے جائیں مگر بلوچستان کو ان کا حق ملنا چاہیے ہمارے 70فیصد غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں ہمارے عوام کے ٹیکس سے جمع ہونے والی آمدن کا نصف بھی صوبے میں استعمال کیاجائے توہمارے کئی ایک مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

بی این پی کے رکن اسمبلی ثناء بلوچ نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو ملنے والے اختیارات کو کم کرنے کی سازشیں ہورہی ہے اور جواز اختیار کیاجارہاہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد وزرائے اعلیٰ کے اختیارات میں اضافہ ہواہے حالانکہ 18ویں ترمیم سے صوبوں کو ان کے حقوق ملے ہیں انہوں نے تجویز دی کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بلوچستان کونظرانداز کرنے پر حکومت واپوزیشن ارکان مشترکہ طورپر ایوان سے واک آؤٹ کریں،انہوں نے کہاکہ حالیہ بجٹ میں حکومت نے 6ہزار سے زائد ملازمتیں رکھی ہیں۔

تاہم کورونا سے پیداہونے والی صورتحال کے بعد صوبے میں 7سے 12لاکھ کے قریب لوگ آئندہ ایک سال میں بے روزگار ہوں گے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے تکلیف دہ صورتحال ہے،آواران،خاران،پنجگور،کوہلو،ڈیرہ بگٹی سمیت بہت سے اضلاع 15سے20سالوں میں ترقی سے محروم رہے ہیں انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز آن لائن کلاسز کے خلاف طلباء وطالبات نے تعلیم کے حصول کیلئے سہولیات کی عدم فراہمی کے خلاف احتجاج کیا جس پر انہیں گرفتار کیاگیا اور حکومت نے واقعہ کا نوٹس بھی لیا ایسے مسائل پر حکومت کو سنجیدگی سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

پسماندگی کی وجہ سے بلوچستان کی طلباء وطالبات کیلئے تعلیم کاحصول مشکل ہوتاجارہاہے اس لئے حکومت جامعات کی طلباء طالبات کے ذمہ واجب الادا 5سے6ماہ کی فیسیں معاف کرائیں انہوں نے ڈھنک،تمپ اور ہزارہ ٹاؤن میں پیش آنے والے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ تربت کے علاقے ڈھنک میں بچی کے سامنے اس کی ماں کو قتل کیا گیا تمپ میں خاتون کو قتل کیا گیا ایسے انسانیت سوز واقعات کے خلاف سول سوسائٹی اور سماجی کارکنوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔

صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران نے بجٹ کو متواز ن اور بہترین قراردیتے ہوئے کہاکہ ماضی میں پسند وناپسند کی بنیاد پر ترقیاتی منصوبے بجٹ میں شامل کئے جاتے رہے۔ مگر آج کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس نے سفارش یا کمیشن کے ذریعے کوئی منصوبہ پی ایس ڈی پی میں شامل کرایا یا کسی نے نکلوایاہے موجودہ حکومت نے یہ تمام سلسلے ختم کرادئیے ہیں وزیراعلیٰ جام کمال خان پورے صوبے کی اکثر ترقی اور خوشحالی پریقین رکھتے ہیں ماضی کے برعکس موجودہ دور میں کسی کے ساتھ نا تو کوئی ناانصافی کی گئی ہے اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کی جارہی ہے۔

بلکہ صوبے کے تمام حلقوں کے منصوبے ضروریات کی بنیاد پر میرٹ کے مطابق شامل کئے جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ یہاں ایک معزز رکن نے گزشتہ روز کے اجلاس میں یہ دعویٰ کیاکہ موسیٰ خیل کیلئے بجٹ میں صرف 14کروڑ روپے کے منصوبے رکھے گئے ہیں جو بالکل درست نہیں میں انہیں چیلنج کرتاہوں کہ وہ اپنا دعویٰ ثابت کریں تو میں استعفیٰ دے دوں گااور اگر نہیں تو وہ ایوان کااستحقاق مجروح کرنے پرمعذرت کرے،انہوں نے کہاکہ ہم اقتدار میں آکر میرٹ پر کام کررہے ہیں طلباء وطالبات کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا وزیراعلیٰ نے سختی سے نوٹس لیا۔

اور آج بھی طلباء وطالبات کی وزیراعلیٰ سے ملاقات ہورہی ہے جب کہ اس کے برعکس سابق دور میں جب میں اپوزیشن کا رکن تھا میرے گھر کے چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے مجھے گرفتار کیاگیا گھر سے قیمتی چیزیں لے جائی گئی کئی سال تک مجھے بکتر بند گاڑی میں اسمبلی لایا اور لے جاتا رہا مگر موجودہ دور میں کسی کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا سابق دور میں صرف ایک سب تحصیل کیلئے 300ڈیمز کے منصوبے دئیے گئے مگر آج پورے صوبے میں یکساں بنیادوں پر تمام شعبوں میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد ہورہاہے جبکہ سابق دور حکومت میں اپنے حلقے کے پونے دو لاکھ آبادی کیلئے ایک ایمبولینس مانگی تھی جو پانچ سال میں مجھے نہیں دی گئی۔

انہوں نے کامیاب بجٹ کی تیاری پر وزیراعلیٰ،وزیر خزانہ سمیت تمام حکام کومبارکباد پیش کی۔ دریں اثناء صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے اگلے مالی سال کے بجٹ کو صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اہمیت کا حامل بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے وسائل میں کمی کے باوجودبجٹ میں تمام شعبوں پر خاطرخواہ توجہ دی، حلقوں میں مداخلت کی بات درست نہیں،پلاننگ کوآرڈی نیشن کمیٹی میں وزیراعلیٰ کے موثر احتجاج کے بعد ہی بلوچستان کواربوں روپے کے منصوبے ملے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعے کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اگلے مالی سال کے بجٹ پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے کیا۔

چار دن ایوان میں بجٹ پر جاری بحث کو سمیٹتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے ایوان کو اگلے مالی سال کے صوبائی بجٹ کے جاری اخراجات اور ترقیاتی عمل سے متعلق تفصیلی طو رپر آگاہ کیا اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے اٹھائے گئے بعض نکات کا بھی تفصیلی جواب دیا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کووفاق سے 30ارب روپے کے لگ بھگ کم فنڈز ملے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف بلوچستان کے حصے میں کمی کی گئی ہے بلکہ کوویڈ19کی وجہ سے جو مالی بحران سامنے آیا ہے۔

اور جو مشکلات پیش آئی ہیں ان کی وجہ سے بلوچستان ہی نہیں باقی صوبوں کو بھی اس بار کم وسائل ملے این ایف سی میں بلوچستان کے شیئر کو آئینی تحفظ حاصل ہے جسے کوئی کم نہیں کرسکتا انہوں نے ا س ضمن میں ایوان کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو5500ملین روپے کا ٹارگٹ ملا تھا جس میں این ایف سی کے تحت بلوچستان کو9.09فیصد ملنا تھا بلوچستان کو 281ارب روپے ملے اس سال چونکہ کوویڈ19کے باعث بننے والے حالات میں صورتحال بالکل مختلف تھی اس بار4200کا ایف بی آر کا ٹارگٹ سیٹ ہوا این ایف سی کے 9.09فارمولے ہی کے تحت بلوچستان کو اس کا حصہ ملا جو 251ارب روپے ہے یوں 30ارب روپے کم ملے تمام صوبوں کے وسائل کم ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ صرف پی ایس ڈی پی کا نام نہیں ہوتا بلکہ بجٹ میں ہر شعبے کو دیکھا جاتا ہے اور ہر حکومت کی یہ کوشش اورخواہش ہوتی ہے کہ وہ وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بروئے کار لائے کسی بھی حکومت کی کارکردگی اور اس کے مالی انتظام کو پرکھنے کے لئے ایک مثال یہ ہے کہ آپ یہ دیکھیں کہ اس حکومت کا ضمنی بجٹ کتنا ہے۔ مالی سال2017-18ء میں بلوچستان کا ضمنی بجٹ26ارب روپے تھا،مالی سال2018-19ء کا ضمنی بجٹ58ارب روپے تھا جبکہ اس بار جو ضمنی بجٹ ہے وہ 20ارب ہے باوجود اس کے کہ اس بار کوویڈ 19اور ٹڈی دل کی وجہ سے حالات انتہائی غیر معمولی ہیں۔

پھر بھی ہم نے بہترین مالی انتظام کو یقینی بنایا انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ہر شعبے کو دیکھا جاتا ہے مسائل اور وسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے یہاں اکثر اراکین اسمبلی نے فقط پی ایس ڈی پی پر بات کی حالانکہ بجٹ پی ایس ڈی کا نام نہیں۔ انہوں نے رواں اور اگلے مالی سال کے دوران بلوچستان حکومت کی جانب سے صوبے کے وسائل میں اضافے کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات اور ترجیحات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ بلوچستان ٹیکس ریونیو موبلائزیشن اس کی واضح مثال ہے حکومت نے ہر محکمے کے لئے گائیڈ لائنز بنائی ہیں۔

تاکہ آنے والے وقتوں میں صوبے کے مالی معاملات کو مزید بہتر بنایا جاسکے۔ انہوں نے صحت، تعلیم اور سوشل سیکورٹی سمیت دیگر شعبہ جات کے لئے حکومت کی ترجیحات اور اہداف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے صحت کے شعبے کے لئے مختص بجٹ میں 40فیصد اضافہ کیا صحت کے شعبے کے لئے پہلے رکھے جانے والے22ارب میں 40فیصد کا اضافہ کرکے اگلے مالی سال میں صحت کے لئے32ارب روپے بجٹ رکھا گیاحکومت نے صحت کے شعبے میں 17سو کے قریب میڈیکل افسران اور ڈاکٹرز کی آسامیاں تخلیق کرکے دیں۔

مختلف اضلاع میں ہسپتالوں کے استعداد کار اور وسائل میں اضافہ کیا جارہا ہے ہسپتالوں اور طبی مراکز میں سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنایا گیا ڈگری کالجز کے فنڈز میں تین گنا اضافہ کیا گیا پرائمری اور مڈل سکولوں کی اپ گریڈیشن ہو یا پھر ایجوکیشن سیکٹر میں 4ہزار کے قریب آسامیاں،صوبے کی جامعات کے لئے فنڈز کی دستیابی کو یقینی بنایا گیا عوامی انڈوومنٹ فنڈ، پنشن فنڈ،زراعت سمیت دیگر تمام شعبوں اور تما م علاقوں پر یکساں توجہ مرکوز کی گئی۔ انہوں نے اپوزیشن اراکین کی جانب سے مداخلت کی بات کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ حلقوں میں مداخلت والی بات ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آرہی اگر میرے حلقے میں ترقی ہورہی ہے۔

اور میں کسی منصوبے کی سرپرتی نہیں کرتا تو اس میں کیا گناہ عظیم ہوا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے نہ صرف خود اقدامات اٹھارہی ہے اور وسائل مختص کئے گئے بلکہ اس مقصد کے لئے وفاق میں بھی ہم نے بھرپور طریقے سے اپنی آواز بلند کی سالانہ پلاننگ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال نے جواحتجاج کیااور واک آؤٹ تک کیا اسی احتجاج ہی کی وجہ سے بلوچستان کے اربوں روپے منظور ہوئے ہوشاب آواران روڈ، کوئٹہ ویسٹرن بائی پاس سکیم، ڈیرہ مراد جمالی بائی پاس اور سی پیک کا مغربی روٹ یہ سب ہماری ہی حکومت میں ممکن ہوا ہے اس سے پہلے تو سی پیک کا مغربی روٹ بعض لوگوں کے لئے ایک سیاسی نعرہ تھا اور بلوچستان کے عوام کے لئے ایک خواب ہی تھا۔

جسے صوبائی نے وفاق میں موثر آواز اٹھا کر یقینی بنایا اور اب اس منصوبے کے لئے وفاقی پی ایس ڈی پی میں فنڈز کی ایلوکیشن ممکن ہوئی بلوچستان کے دس اضلاع کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ سرحدیں لگتی ہیں سرحدی علاقوں تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیوں کے لئے ہم نے وفاق سے بات کی ہے اور وفاقی حکومت نے ان سرحدی اضلاع میں 13مقامات پر بارڈر مارکیٹس کے قیام کی یقین دہانی کرائی ہے۔

انہوں نے ایوان کو آگاہ کیا کہ اپوزیشن اراکین کی جانب سے بجٹ پر بحث کے دوران بعض اضلاع سے متعلق جو اعدادوشمار پیش ہوئے وہ درست نہیں اس ضمن میں وزیرخزانہ ژوب، شیرانی اور پشین کے اضلاع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موسیٰ خیل میں 97کروڑ،شیرانی میں 67کروڑ اور پشین میں 1ارب80کروڑ روپے کی ایلوکیشن ہوئی ہے۔

اپوزیشن اراکین اس بات کو سمجھیں کہ ملک کے44فیصد رقبے پر محیط بلوچستان میں مختلف علاقے ہیں اور ہر علاقے کی اپنی ضروریات، اپنے لوازمات اور ترقی کے اپنے تقاضے ہیں کینال وہاں بنے گا جہاں ایری گیشن ہو،منرل یونیورسٹی وہاں بنے گی جہاں معدنیات ہوں جیٹی وہاں بن سکتی ہے جہاں سمندر ہوانہوں نے اس عزم کااظہار کیا کہ صوبائی حکومت صوبے کے تمام علاقوں کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لئے عوام دوست اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گی۔