اسلام آباد: ملک کو سیاسی بحران نے بری طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، تو قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کو ایک مشکل انتخاب کا سامنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے تیس اراکین قومی اسمبلی کے پارلیمنٹ سے استعفے سے متعلق قومی اسمبلی کے سیکریٹیریٹ کو پہلے ہی غیریقینی کیفیت نے احاطہ کیا ہوا ہے۔
لیکن اس تعطل کو خوش اسلوبی اور جلد از جلد ختم کرنے کے دباؤ کے باوجود اسپیکر اس معاملے پر کوئی فیصلہ لینے کو مؤخر کرسکتے ہیں۔
پانچ اکتوبر کو کیمرون میں منعقد ہونے والی دولتِ مشترکہ کی پارلیمانی ایسوسی ایشن (سی پی اے) کے ساٹھویں سالانہ اجلاس میں اسپیکر شرکت کریں گے۔
ایک ہفتہ تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے اسپیکر دارالحکومت میں اپنی ذمہ داریوں سے کم از کم گیارہ اکتوبر تک دور رہیں گے۔
اگر کوئی دوسرا پروگرام ہوتا تو اسپیکر اپنی معذرت بھیج سکتے تھے۔
لیکن اس لیے کہ پاکستان سی پی اے کی اگلی کانفرنس کی میزبانی کی توقع کررہا ہے، ایاز صادق کی حاضری انتہائی اہمیت کی حامل ہے، چنانچہ ان کے اس دورے کے دوران اگلی کانفرنس کے دعوت نامے کی ان سے توقع کی جائے گی۔
اسی دوران ایاز صادق پی ٹی آئی کے اراکین کے پہلے سے جمع کرائے گئے استعفوں پر کسی ایک فیصلے تک پہنچنے میں تذبذب کا شکار ہیں، کہ وہ ان کو منظور کریں کہ ان کو مؤخر کردیں، تاکہ مذاکرات کے ذریعے ایک سیاسی حل سامنے آسکے۔
حزبِ اختلاف کا ایک سیاسی جرگہ جو احتجاجی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ثالثی کی کوشش کررہا ہے، حال ہی میں اسپیکر سے ملاقات کی اور ان پر زور دیا کہ استعفے پر کسی فیصلے کو مؤخر کردیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق جو ثالثی کرنے والے اس گروپ کی قیادت کررہے ہیں، پہلے ہی اسپیکر سے کہہ چکے ہیں کہ اس موقع پر استعفے پر عملدرآمد سے دونوں فریقوں کے درمیان تقسیم مزید گہری ہوجائے گی اور اس تعطل میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسپیکر نے اپنے مؤقف کو برقرار رکھا ہے کہ جب تک وہ ہر ایک رکن سے ذاتی طور پر ملاقات کرکے مستعفی ہونے کے ارادے کی تصدیق نہیں کرلیتے، وہ قومی اسمبلی کی انضباطی کارروائی کے قانون 43(2)بی کے تحت اس کو قبول نہیں کریں گے۔
تاہم پی ٹی آئی کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے پارٹی تقسیم ہوجائے گی، اور پہلے ہی وہ تین رکن قومی اسمبلی کی بظاہر بغاوت سے ہشیار ہوچکی ہے، جنہوں نے استعفٰی دینے سے انکار کردیا ہے۔
تاہم صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر اس بات کا امکان ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اسپیکر کو اپنا دورہ منسوخ کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا ’’ایسا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر پی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں پر کوئی فیصلہ عیدالاضحٰی سے قبل نہیں لے سکیں گے، جو چھ اکتوبر کو منائی جائے گی۔ اگر وہ دولتِ مشترکہ کی کانفرنس میں شرکت کے لیے چلے جاتے ہیں تو اس معاملے میں مزید تاخیر ہوجائے گی۔‘‘
اسپیکر یہ پہلے ہی واضح کرچکے ہیں کہ وہ استعفوں کے معاملے پر قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ایک مشکل انتخاب کا سامنا
وقتِ اشاعت : September 29 – 2014