|

وقتِ اشاعت :   June 30 – 2020

ملک میں سیاسی جماعتوں کی پارٹی پالیسی اور نظریاتی بننے کے دعوے ان کی حکمرانی کے دور سے ہی لگائے جاسکتے ہیں جو بھی جماعت اقتدار میں آئی ان کی ترجیحات میں عوام نہیں رہی بلکہ اپنے ہی مفادات کوزیادہ اہمیت دیتے ہوئے انہیں پورا کیا،عوام کو محض خواب ہی دکھائے لہٰذا کوئی جماعت نظریاتی ہونے کا دعویٰ کم ازکم نہ کرے۔

چونکہ ستر سال سے زائد ادوار میں نظریاتی بننے کے دعویداروں نے نہ صرف اپنی جماعتیں بدلیں بلکہ وفاداری کے عوض من پسند وزارتوں کے شرائط رکھے اگر وہ بدقسمتی سے پورے نہیں ہوئے تو ناراضگی جیسے لفظ کا سہارا لیتے ہوئے پارٹی کے اندر دھڑے بندی تک کی گئی اس لئے آج سیاسی ومعاشی نظام مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔بہرحال سیاسی جماعتوں کے درمیان چپقلش اور مفادات کی جنگ آج تک چلتی آرہی ہے اور انتقامی سیاست اس کی واضح مثال ہے۔بہرحال گزشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس کے دوران دو جماعتوں کے اہم رہنماؤں کے بیانات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ آج بھی ان کی ترجیحات مسائل نہیں بلکہ اقتدار پر براجمان رہنا ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیر اعظم غلط فیصلے کرنے پر ایوان میں آ کر معافی مانگیں اورعمران خان استعفیٰ دیں اور گھر چلے جائیں۔بلاول بھٹو نے تحریک انصاف کی حکومت کو منافق حکومت قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ تقریر میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا لکھا ہوا ہے لیکن ابھی بجٹ منظور ہی نہیں ہوا اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ پاکستان کے عوام کورونا اور معاشی بحران کا مقابلہ کر رہے ہیں کہ ایسے میں پٹرولیم لیوی کا بم گرا دیا گیایہ اقدام ناانصافی کے ساتھ غیر قانونی بھی ہے۔

پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا فائدہ صرف کمپنیوں کو پہنچا۔انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے مہنگائی بڑھ جائے گی، ہم ہر فورم پر اس فیصلے کو چیلنج کریں گے کیونکہ حکومت عوام کی جیب سے پیسہ نکال کر پٹرولیم کمپنیوں کو دے رہی ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ وزیر اعظم نے آٹے، چینی کا نوٹس لیا اور وہ دونوں ہی مہنگی ہو گئیں۔ بہتر ہو گا وزیر اعظم خود کو قرنطینہ میں رکھیں اور تقریر نہ کریں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلز پارٹی میں جس پر بدعنوانی کا الزام لگا وہ باعزت بری ہوا۔ جب ہم باعزت بری ہوں گے تو ان کے لوگ جیل میں نیب کے کیسز بھگت رہے ہوں گے۔

سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف رینٹل پاور کیس سے باعزت بری ہو گئے۔دوسری جانب بلال بھٹوزرداری کی تقریر کے ردعمل میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کاکہناتھا کہ عمران خان آیا ہی نوٹس لینے کے لیے ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سے سوال ہے جب مراد سعید تقریر کرتے ہیں آپ بھاگ کیوں جاتے ہیں؟ ایوان میں عمران خان کا ٹائیگر موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان اور ان کے نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں اور قوم سن لے عمران خان ایک مقصد کے لیے آئے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں اتحادی جماعتوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہم نے سو جتن کر لیے لیکن وہ چٹان کی طرح قائم ہیں لیکن ہم بھی اپنے نظریے کا سودا نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ کل ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا عمران خان استعفیٰ دے دیں، کیا عمران خان تمہارے کہنے پر استعفیٰ دے دیں؟ آپ کس باغ کی مولی ہیں جو عمران خان تمہارے کہنے پر استعفیٰ دیں؟وزیر خارجہ نے حزب اختلاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ملک لوٹو عمران خان نوٹس لینا بند کردے؟ نہیں،عمران خان آیا ہی نوٹس لینے کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ شور مچالو، سڑکوں پر آجاؤ لیکن ہم نظریے کا سودا نہیں کریں گے۔ یہ تو کہتے تھے ہم بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے اور حکومتی اتحاد میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔دونوں رہنماؤں کی تقاریر کے متن کا جائزہ لیاجائے تو آپ کو ایک بات واضح دیکھنے کوملے گا کہ جس کا دور آئے گا وہ مخالفین کو زیر کرنے کیلئے سرکاری مشینری کا استعمال کرے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح کہاکہ جب باعزت بری ہونگے تو ان کے لوگ جیل میں نیب کے کیسز بھگت رہے ہونگے جبکہ شاہ محمود قریشی نے جوابی حملہ میں کہاکہ عمران خان نوٹس لینے ہی آیا ہے

یعنی عوامی مسائل کے حل کی اہمیت نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف پیشگی منصوبہ بندی کرکے سیاسی نظام کو جام کرنا ہے۔ عوامی مسائل آج بھی اپنی جگہ اسی طرح موجود ہیں جو پہلے تھے اگر اسی ایوان کے اندر سیاسی جماعتیں ملکر ہم آہنگی کے ساتھ ملکی مفادمیں بہترین منصوبہ بندی اور قانون سازی کرتے ہوئے عوامی مفادات کیلئے معاشی پروگرام ترتیب دیتے تو آج ملک میں غریب عوام اس قدر پریشانی سے دوچار نہ ہوتے،اسی طرح قومی اداروں کی بہتری، منافع بخش اداروں پر سرمایہ کاری کی جاتی تو ادارے مالی بحران کا شکار نہ ہوتے۔

بیرونی سرمایہ کاری کیلئے مواقع پیداکرنے کیلئے متفقہ طور پر معاشی ماہرین کی مدد لیتے تو یقینا ملکی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر عالمی منڈی تک رسائی ہوتی بلکہ بڑے بڑے ممالک یہاں سرمایہ کاری میں دلچسپی لیتے اور قومی خزانہ جو وینٹی لیٹر پر چل رہا ہے اس سے جان چھوٹ جاتی مگر بدقسمتی سے روایتی سیاست جاری ہے اور ان رویوں سے اس کے بہتر ہونے کے امکانات مستقبل میں بھی دکھائی نہیں دیتے۔ خدارا ملک آج معاشی حوالے سے انتہائی بدترین صورتحال سے دوچار ہے اگر سیاسی روش اسی طرح برقرار رہی تو کسی بھی جماعت کی حکومت آئے تبدیلی محض خواب ہی ہوگا بحرانات اسی طرح برقرار رہینگے۔