|

وقتِ اشاعت :   July 3 – 2020

قومی اسمبلی کے گزشتہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے مائنس ون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگرمائنس ون ہو بھی گیا توباقی بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے۔اس کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ چکی ہے اور بعض قیاس آرائیاں بھی سامنے آرہی ہیں کہ اندرون خانہ کچھ چل رہا ہے۔بہرحال وزیراعظم کے اس بیان سے چند روز قبل کے سیاسی حالات کا جائزہ لیاجائے تو منظر نامہ کچھ واضح ہوتاجائے گا۔ جس طرح سے فواد چوہدری نے اپنے ایک انٹرویو میں پی ٹی آئی کے اندر موجود اختلافات پر بات کرتے ہوئے حکومتی ناکامی کا ذکر کیا۔

اور کہاکہ اس وقت وزراء کی بجائے بیورو کریسی کام کررہی ہے،جس تبدیلی اور مقصد کیلئے حکومت میں آئے تھے اس میں ہم ناکام ہوچکے ہیں جبکہ وزیراعظم عمران خان نے وزراء کو چند ماہ کی مہلت دی ہے کہ اگر انہوں نے بہترین کارکردگی نہیں دکھائی تو آنے والا وقت شاید ٹھیک نہیں ہوگا۔ فواد چوہدری نے جس طرح سے جہانگیر ترین اور اسد عمر کے درمیان اختلافات اور ایک دوسرے کو پارٹی سے مائنس کرنے کی لڑائی کا ذکر کیا،یہ وہ باتیں ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہیں جوکسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ فواد چوہدری کے انٹرویو کے بعد سیاسی مبصرین اور سیاسی حلقوں نے انٹرویو کے خدوخال پر مختلف زاویوں سے تجزیہ کیا۔

کہ فواد چوہدری نے یہ باتیں کسی طور جذبات میں آکر نہیں کی ہیں بلکہ اس نے وزیراعظم کوپیغام دینا تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم کیلئے حالات بہتر نہیں ہیں، شاید کبھی بھی کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔اسی طرح پی ٹی آئی کے ایک وفاقی وزیر کابینہ اجلاس کے دوران دو اہم وزراء پر برس پڑے تھے کہ ایسی سازشیں رچائی جارہی ہیں تاکہ یہ وزیراعظم کو منصب سے ہٹاسکیں اور اس دوران کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے کوئی خاص ردعمل بھی نہیں دیا، مگر وفاقی وزیر فیصل واؤڈا سے جب اس تمام صورتحال کے حوالے سے پوچھا گیا۔

تو انہوں نے کہاکہ پارٹی معاملات کو باہر نہیں لانا چاہتے اس لئے خاموشی بہتر ہے۔ اس سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ کابینہ اجلاس کے دوران تلخیاں پیدا ہوئی تھیں مگر اب پی ٹی آئی کی اندرون خانہ لڑائی باہر نکل چکی ہے اور وزیراعظم عمران خان کے مائنس ون کے بیان سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو بھی شاید اس حوالے سے اشارہ دے دیا گیا ہے کہ انہیں ہٹانے کا اہتمام کیاجارہا ہے وگرنہ وہ مائنس ون کا ذکر نہ کرتے۔ ذرا ماضی کے ادوار پر بھی نظر دوڑائی جائے تو بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف بھی اپنے ادوار میں مائنس ون کی بات کرتے تھے۔

پھر انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹادیاگیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے وزارت عظمیٰ کے جانے کے دوران پارٹی اس قدر شدید اختلافات کا شکار ہوتی دکھائی نہیں دیتی تھی اور نہ ہی کوئی ایسے کھل کر سازشوں کی بات ہوتی تھی مگر یہ پی ٹی آئی کی اندرون خانہ معاملات ہیں۔وزیراعظم عمران خان کے جملے سے یہ بھی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر سے کوئی بھی وزیراعظم کے سامنے کھڑا نہیں ہوگا کیونکہ وہ اپنے جانے کے بعد اپنے ارکان کی جانب اشارہ دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگر میں مائنس ہوا تو ہمارے ساتھی کرپٹ مافیاز کو نہیں چھوڑیں گے۔

پھر یہ وزیراعظم کو مائنس ون کے اشارے اور پیغامات کہاں سے مل رہے ہیں؟ بہرحال اپوزیشن جماعتیں ایسی پوزیشن میں نہیں کہ وہ پی ٹی آئی حکومت کو گراسکیں، بہت سے معاملات اب تک ابہام میں ہیں البتہ چند ماہ انتہائی اہم ہیں جو سیاسی حوالے سے بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں۔