وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اصل سی پیک بلوچستان ہے جو چمن سے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک اور ایران اور ترکی کے راستے یورپ تک رسائی کا واحد ذریعہ ہے، درحقیقت بلوچستان مواقعوں کی سرزمین اور گیم چینجر صوبہ ہے، طویل ساحل، معدنیات، ماہی گیری اور سیاحت کے شعبے اور تاپی گیس پائپ لائن کا منصوبہ بلوچستان کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں، سی پیک میں بلوچستان کی اہمیت کو جتنی جلدی تسلیم کرلیا جائے ملک کے لئے فائدہ ہوگا، وزیراعلیٰ نے متعلقہ محکموں کی جانب سے ترقیاتی امور پر دی گئی۔
بریفنگ کے حوالے سے کہا کہ ماضی کے برعکس موجودہ حکومت عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہوئے بھرپور دلچسپی کے ساتھ ہر سیکٹر میں ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے جس کے لئے محکموں کو مکمل اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ نئے ترقیاتی منصوبے ترقیاتی پروگرام میں شامل کرائیں تاہم اگر محکمے اس سازگار ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتر نہیں کرتے تو یہ امر باعث افسوس ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا جواب ہمیں دینا ہوتا ہے اور بعض اوقات محکموں کی کمزور کارکردگی کے باعث جواب دینا مشکل ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف فیصلے کرکے کاغذی کاروائی تک محدود رہنا کافی نہیں بلکہ ترقیاتی منصوبے زمین پر نظر آنے چاہئیں، محکموں کے سامنے بڑے چیلنجز نہیں ہیں صرف بنیادی امور کی بہتر طریقے سے انجام دہی کی ضرورت ہے بصورت دیگر چھوٹے چھوٹے امور بڑی کوتاہیوں میں بدل جاتے ہیں اور محکموں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، وزیراعلیٰ نے ترقیاتی منصوبوں میں ماحولیات کے تحفظ اور ایکو ٹورازم جیسے عوامل کو بھی مدنظر رکھنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک ایسے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔
جس کے تحت ترقیاتی منصوبوں اور پالیسیوں کے معاشی، سماجی اور ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ ممکن ہوسکے جس کی روشنی میں ترقیاتی حکمت عملی کے موثر نتائج مل سکیں۔بلوچستان اپنی جغرافیہ اور محل وقوع کے لحاظ انتہائی اہمیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے خشک اور ساحلی راستوں کو معاشی حوالے سے ہر وقت نظرانداز کیا گیا ہے حالانکہ سینٹرل ایشیاء کے ساتھ راہداری کے ذریعے تجارت کو بڑے پیمانے پر وسعت دی جاسکتی ہے جس طرح سے ایران اس روٹ کو استعمال کررہا ہے اسی طرح گوادر بندرگاہ کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور یورپی ممالک کے ساتھ ٹریڈکے بیشمار مواقع موجود ہیں۔
المیہ یہی ہے کہ سرمایہ کاری کیلئے جتنی رقم بلوچستان حکومت کو ضرورت ہے اسے فراہم نہیں کی جاتی حکومتی بجٹ خسارے پر چلتی ہے اگر وفاقی حکومت جلد این ایف سی ایوارڈ اور دیگرفنڈز بلوچستان کو دے تو ان رقوم کے ذریعے سرمایہ کاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت دیگر سیکٹر کو بھی فعال کرسکتی ہے جو براہ راست صوبائی اور قومی خزانہ کو فائدہ پہنچائے گی۔ اول روز سے یہی مطالبہ کیاجاتا رہا ہے کہ بلوچستان کو بجٹ میں جتنی رقم ملتی ہے وہ انتہائی ناکافی ہے جس سے بلو چستان ترقی نہیں کرسکتا حالانکہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی نسبت بڑے میگا منصوبے قومی خزانہ کو آج تک فائدہ پہنچارہے ہیں۔
مگر صوبہ کو اس کا حق ہی نہیں دیاجاتا۔ گیس رائلٹی، سیندک پروجیکٹ جیسے اہم منصوبوں کے باوجود بلوچستان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں وفاقی حکومتوں سے نالاں رہتی ہیں کہ ان کے جائز مطالبات کو نظرانداز کیاجاتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے جن منصوبوں کی بات کی ہے ان میں سے ایک آدھ کو بھی شروع کیاجائے تو بہتری آنے کے قوی امکانات ہیں مگر سرمایہ کاری اولین شرط ہے اس کے بغیر منصوبوں کی تکمیل ممکن نہیں۔