|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2020

وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان عزیر بلوچ اور بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لیں۔وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی سے متعلق بات کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت سیاست صحیح اور غلط کی ہے جبکہ ہم ملک بدلنے کے لیے اقتدار میں آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا فرض غلط کام کو روکنا اور عوام کو حقائق بتانا ہے۔ نبیل گبول نے گزشتہ رات کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ مکمل نہیں ہے۔

جے آئی ٹی میں ایک شخص درجنوں قتل کا اعتراف کرتا ہے لیکن جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ عزیر بلوچ نے کس کے کہنے پر قتل کیے۔علی زیدی نے کہا کہ لوگ وزیر بننے کے بعد دیگر طریقوں سے رقم بٹورتے رہے ہیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے صفحہ نمبر 7 میں عزیر بلوچ،فریال تالپور سے ملاقات کی بات کرتے ہیں اور آخری صفحے پر کہتے ہیں کہ خدشہ ہے مجھے اور اہلخانہ کو جان سے مار دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ عزیر بلوچ کے مطابق سر کی قیمت فریال تالپور اور آصف علی زرداری کے کہنے پر ختم کی گئی اور سینیٹر یوسف کے کہنے پر قائم علی شاہ سے ملاقات کی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ رواں سال جنوری میں سندھ ہائی کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا تھا تاہم اس کے باوجود سندھ حکومت نے رپورٹ پبلک نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ سال 2017 میں چیف سیکرٹری سے جے آئی ٹی رپورٹ مانگی لیکن چیف سیکرٹری نے اس وقت مجھے رپورٹ دینے سے انکار کر دیا تھا اور چیف سیکرٹری کے انکار کے بعد میں نے عدالت سے رجوع کیا۔بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ مشکل سے جاری کی گئی اور اس رپورٹ میں پولیس کی نااہلی کا ذکر کیا گیا۔عزیر بلوچ کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے تعلقات کی طویل فہرست موجود ہے۔

جوکسی سے ڈھکی چھپی نہیں،کالعدم تنظیم امن کمیٹی کے لیاری اور ملیر میں ہونے والے جلسے جلوس سمیت دیگر سرگرمیوں کے دوران اہم شخصیات کی شرکت آج بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں صرف پیپلزپارٹی نہیں بلکہ دیگر اہم سیاسی جماعتوں کی شخصیات نے بھی عزیر بلوچ کے ساتھ تعلقات بنارکھے تھے، اب ان کی نوعیت کیا تھی اس پر بحث کیا جاسکتا ہے مگر ایک گینگسٹر کے ساتھ شریف النفس شخصیات کے تعلقات چہ معنی دارد۔ المیہ یہ ہے کہ سیاسی مقاصد اور مخالفین کو زیر کرنے کیلئے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کو استعمال کیا گیا۔

اورسالوں تک کراچی اسی طرح لسانی بنیاد اور ووٹ بینک کے حصول کیلئے جلتا رہا اور بڑی تعداد میں لوگ لقمہ اجل بنتے گئے۔ آج جے آئی ٹی پر ڈھول پیٹنے والے اپنے ماضی میں بھی جھانکیں جنہوں نے اپنے مفادات کیلئے عزیر بلوچ کے ساتھ قربت رکھی۔ بہرحال ہمارے یہاں حقائق سے ہٹ کر بعض چیزوں پیش کیاجاتا ہے مگر متاثرہ عوام آج بھی ان تمام کرداروں کو نہیں بھولے جنہوں نے ان کے علاقوں کو لہولہان کرنے والوں کے ساتھ اس وقت کھڑے رہے اور لسانی بنیاد پر جس طرح سے بلوچ، اردواورپختون بولنے والوں کو دست وگریباں کیا گیا۔

ایک دوسرے کیلئے علاقے نوگوایریاز بن گئے، سیاسی مقاصدکوبے گناہوں کا لہو بہا کرحاصل کیا گیا۔ یہ کہنا کہ عزیر بلوچ اور بلدیہ فیکٹری سانحہ میں چند افراد شامل تھے،درست نہیں آج بھی وہ کردار جو اس سانحہ اور عزیر بلوچ کے دفاع کیلئے ٹی وی اسکرین پر دکھائی دیتے تھے دھندناتے پھر رہے ہیں جو قانون کی بالادستی پر سوالیہ نشان ہے۔