چمن: ریلی پاک افغان بارڈر شاہراہ سے شروع ہوئی جو کہ شہر کے مختلف شاہراہوں سے ہوتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے ایک احتجاجی جلسہ عام میں تبدیل ہوئی جلسہ میں ہزاروں کی تعداد میں کارکنان اور عوام نے شرکت کی احتجاجی جلسہ عام سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ 4ماہ سے پاک افغان بارڈر بندکیا گیاہے جس کے باعث چمن کے ایک لاکھ سے زائد افراد نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں۔
کیونکہ چمن میں نہ کوئی فیکٹری ہے نہ اور کوئی زراعت کا زریعہ،چمن کے اکثریت آبادی کا روزگار چمن پاک افغان بارڈر سے منسلک ہے حکومت کورونا وائرس کی اڑ میں ہمارے لوگوں پر روزگار کے دروازے بند نا کریں جو کہ صدیوں سے اس علاقے کے لوگوں کا حق ہے پاک افغان بارڈر سے نا صرف پشتون تاجر بلکہ ہندو عیسائی کا روزگار بھی وابستہ ہے لہٰذا یہ پورے انسانیت کا مسئلہ ہے۔
چمن بارڈر کے دونوں اطراف یہاں کے لوگوں کی رشتہ داریاں ہے انہوں نے کہا کہ جب تک پاک افغان بارڈر نہیں کھولا جائے گا ہمارا یہ احتجاج اسی طرح جاری رہے گا حکومت چمن بارڈر کے حوالے سے سنجیدہ ہی نہیں ہے ان کو اب تک یہ نہیں پتہ کہ یہ بارڈر ہے کسی طرف جو کہ حکومت کیلئے افسوس کی بات ہے انہوں نے کہاکہ چمن پاک افغان بارڈر کو کسی سازش کے تحت بند کر رکھا ہے۔
بارڈر کی بندش سے کچھ لوگوں کے اپنے مقاصد ہے انہوں نے کہاکہ کے بارڈر کے نہ کھولنے اس احتجاج کو مزید سخت کیا جائے گا اگر یہاں کے لوگوں پر روزگار بند رہا تو ہم کسی کو بھی اسانی سے روٹی اور پانی کی سپلائی نہیں ہونے دینگے ہمارا مطالبہ ہے کے جلد سے جلد پاک افغان بارڈر کو کھولا جائے جب بارڈر کھولا تھا تو بھی ہمارے لوگوں کو ایک کاٹن اور ایک آٹے کی بوری پر قتل کیا۔
جاتا رہا انہوں مزید کہاکہ احتجاجی جلسہ عام سے دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا جنہوں نے بھی پاک اففان بارڈر فوری طور پر کھولنے کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ 4 ماہ گزر جانے کے باوجود بارڈر نا کھولنا چمن کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے پاک افغان بارڈر پر ہزاروں کی تعدادمیں لوگ احتجاجی دھرنادئے ہوئے 39دن ہوگئے جبکہ پاک افغان بارڈر شاہراہ کو احتجاجاًبند کئے ہوئے 13دن گزر گئے جس کے نتیجے میں مکمل طورپرامپورٹ ایسکپورٹ افغان ٹرانذٹ ٹریڈ اور نیٹوسپلائی معطل ہوگئی ہیں جس سے تاجروں کو بڑے نقصان کے ساتھ ساتھ ملک کوبھی اربوں روپوں کا نقصان ہورہاہیں۔