پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری گزشتہ چند دنوں سے سیاسی حوالے سے زیادہ متحرک دکھائی دے رہے ہیں، حکومتی پالیسیوں پر شدید ردعمل اور تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں شاید ملک میں اپوزیشن کی خلاء کو پُر کرنے کیلئے اس وقت پیپلزپارٹی میدان میں اتری ہے کیونکہ مسلم لیگ ن فی الوقت مکمل خاموش ہے اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی اتنی متحرک نہیں ہیں۔ گزشتہ روز ایک بار پھر سکھر میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے الزام لگایا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق خفیہ آرڈیننس متعارف کرایا ہے۔
کلبھوشن کا کون سا خفیہ آرڈیننس ہے جو پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر متعارف کرایاگیا؟ کلبھوشن سے متعلق سلیکٹڈ حکومت کا خفیہ آرڈیننس ناقابل برداشت ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کلبھوشن کوسہولت فراہم کرنے کیلئے آرڈیننس پیش کیا ہے۔ یہ آرڈیننس غیرآئینی اورغیرقانونی ہے۔اگر پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی اور اس قسم کا آرڈیننس لاتے تو ہمیں کوئی نہ چھوڑتا۔ آرڈیننس مئی میں جاری کیا گیا ہے جس کا وقت بھی گزر گیا ہے۔ سلیکٹڈ حکومت نے جتنے فیصلے کیے ہم سب کے سامنے ہیں۔
چیئرمین پیپلزپارٹی نے کہا کہ کلبھوشن سے متعلق حکومت کے خفیہ آرڈیننس پر احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کلبھوشن سے متعلق حکومت کے خفیہ آرڈیننس کی ایک اور وجہ ہے کہ وزیراعظم کوجانا چاہیے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن نے آرڈیننس کافائدہ لینے سے انکارکردیا ہے، آرڈیننس سے متعلق حکومت کو اپوزیشن کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ ہمیں بے خبر رکھتے ہوئے کلبھوشن کیلئے آرڈیننس لایا جارہا ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ پوری دنیا میں انصاف کے لیے عدلیہ کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان میں قانون سب کے لیے ایک ہونا چاہیے۔
اپوزیشن ارکان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے،بلاول بھٹو کا کہناتھا کہ حکومت کو غربت، بے روزگاری اور وبا پر فوکس کرنا چاہیے تھا۔ کورونا سے پہلے، بھوک،غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہورہا تھا۔ حکومت کو عوام کی صحت کی حفاظت کیلئے اقداما ت کرنے چاہئیں۔بلاول بھٹو زرداری حکومت کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں مگر ان سیاسی سرگرمیوں سے صرف اپوزیشن کی خلاء کو پُر ہی کیاجاسکتا ہے کوئی بڑا ٹارگٹ اس وقت حاصل کرنے کی پوزیشن پیپلزپارٹی کی نہیں ہے جس طرح مسلم لیگ ن کی ہے۔
اطلاعات یہ بھی موصول ہورہی ہیں کہ مسلم لیگ ن کے اندر بھی دراڑیں پڑچکی ہیں شاید اس لئے اندرون خانہ معاملات کو سلجھانے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام نے اسلام آباد دھرنے کے دوران ایک سیاسی ٹیسٹ کے طور پر اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی مگر اس طرح انہیں کامیابی نہیں ملی جس کی توقع مولانا فضل الرحمان کررہے تھے۔ بہرحال حکومت ابھی تک اپنی ٹریک پر چل رہی ہے جو اندرون خانہ پی ٹی آئی کے اختلافات تھے اب اس حوالے سے بھی خاموشی ہے اوریہ خطرہ بھی موجود نہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک لائی جاسکے۔
خاص کر پیپلزپارٹی کی اپنی پوزیشن مرکز میں اس قدر مضبوط نہیں کہ وہ وہاں کوئی ہلچل پیدا کرسکے البتہ حالیہ سیاسی ماحول میں گرما گرمی پیدا کرنے کامقصد پیپلزپارٹی اپنی پوزیشن کو ایک بار پھر مضبوط کرنا چاہتی ہے جس طرح پہلے پنجاب میں پارٹی کی حیثیت تھی مگر فی الحال کچھ کہناقبل ازوقت ہوگا کہ پنجاب کے اندر پیپلزپارٹی ایک بار پھر اہم پوزیشن لینے میں کامیاب ہوجائے گی؟