|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2020

مولانا سید میرک شاہ مرحوم 1912 میں ڑوب کے مضافات کلی اپوزہء میں مولوی سید نور محمد شاہ مرحوم کے گھر پیدا ہوئے،آپ کا تعلق افغانستان کے صوبے کنڑ کے سادات قبیلہ سے تھا،یہ سادات قبیلہ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کے بعد اس بستی کے معتبرین کے شدید اصرار پر وہیں آباد ہوئے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ڑوب سے حاصل کی،ابتداہی تعلیم کے بعد دینی علوم کے سلسلے میں ہندوستان کے شہر دیوبند چلے گئے،دیوبند میں مختلف فنون کی تحصیل کے بعد دورہ حدیث کی تکمیل جامعہ قاسمیہ شاہی مسجد مرادآباد یو پی انڈیا سے کیا۔

آپ کے اساتذہ و مشائخ میں شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی،مولانا اعزاز علی،مولانا عجب نور بنوی اور شیخ الحدیث مولانا فخر الدین رحم اللہ شامل ہیں،مفکر اسلام مولانا مفتی محمود ان کے ہم درس ہونے کے ساتھ ساتھ بعض کتابوں میں تکرار کے شاگرد رہے،دینی علوم کی تکمیل کے بعد تقسیم ہند سے قبل واپس اپنے گاؤں اپوزہء تشریف آوری ہوئی اور گاؤں کے ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینے لگے،پاکستان بننے کے فورا بعد مرکزی جامع مسجد ڑوب کے امام وخطیب مقرر ہوئے اور تادم مرگ اس منصب پر فائز رئیزمانہ طالب علمی ہی سے سیاست ان کی دلچسپی کا محور رہی لہذا تقسیم ہند سے قبل جمعیت علماء ہند اور پاکستان کی تشکیل کے بعد جب جمعیت علماء اسلام کی بنیاد ڈالی گئی تو اس سے وابستہ ہوگئے۔

جب مولانا مفتی محمود کی قیادت میں مولانا عبداللہ درخواستی اور مولانا غلام غوث ہزاروی نے جمعیت کی بنیاد ڈالی تب مولانا مرحوم بلوچستان کے جید علماء مولانا عرض محمد،مولانا محمد عمر پڑنگ آبادی اور مولانا عبدالغفور کی معیت میں کوئٹہ اور موجودہ بلوچستان میں جمعیت کو منظم کیا 1967میں مولانا مفتی محمود کے دورہ ڑوب کے موقع پر مولانا اسحاق خوستی،خواجہ احمد گل اور حافظ عبدالغفور وغیرہ کے ساتھ ملکر ضلع ڑوب کی سطح پر جمعیت کو باقاعدہ منظم کرکے مجلس عاملہ تشکیل دی گئی اور مولانا مرحوم اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے سیاست کے ساتھ مولانا مرحوم نے تدریسی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔

چنانچہ 1961 میں مولانا غلام نبی اور مولانا سید محمد شاہ مرحوم کی رفاقت میں ڑوب کی اولین دینی درسگاہ شمس العلوم کی بنیاد ڈالی اور اس کے نائب مہتمم کے ساتھ شیخ الحدیث بھی مقرر ہوئے اور تاحیات یہ زمہ داری نبھاتے رئے،1956 میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی 1967 میں اسرائیلی بربریت کے نتیجے میں جب یہودی افواج فلسطین پر حملہ آور ہوکر مسجد اقصیٰ پر قابض ہوگئے تو مولانا مرحوم اس جارحیت کے خلاف جمعیت کی تحریک “مجاھدین قدس فورس”کی تشکیل میں ¹¹پیش پیش رہے 1970 میں طویل مارشلاء کے بعد بالغ راہے دہی کے تحت منعقد ہونے والے ملک کے پہلے عام انتخابات میں جمعیت کے امیدواروں کی کامیابی کے لیے ماہ رمضان کے دوران ضلع بھر کے چپے چپے کا دورہ کیا۔

اور جماعتی نمائندوں کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا،1974 میں مولانا شمس الدین شہید کی المناک شہادت کے بعد ان کی نشست پر ضمنی انتخابات میں ان کے والد محترم مولانا محمد زاہد مرحوم کی کامیابی کیلئے بھی مولانا مرحوم نے بھرپور مہم چلائی،ان ضمنی انتخابات میں علاقے کے باثر نوابوں،سرداروں اور سرمایہ داروں کے اثر ورسوخ اور دھونس دھمکیوں کے باوجود مولانا مرحوم اس انتخابی مہم کے روح رواں رہے1973 میں پاکستان کی سطح پر پہلی مرتبہ ڑوب سے،ان کی قیادت میں قادیانیوں کی ختم نبت مخالف سرگرمیوں کی بناء پر،قادیانیوں کے علاقے سے انخلاء اور ڑوب کو “قادیانی فری ” خطہ قرار دینے کی تحریک شروع ہوئی۔

ان سرگرمیوں کے نتیجے میں انہیں گرفتار کرکے ان کے خلاف “نقص امن عامہ “اور “ریاست کے خلاف بغاوت ” جیسے سنگین نوعیت کے مقدمات درج کئے گئے،گرفتاری کے بعد انھیں کوئٹہ جیل منتقل کیا گیا لیکن فرزندان توحید کی لازوال جدوجہد اور بھرپور تحریک کے نتیجے میں ایک ماہ بعد ساتھیوں سمیت رہائی ملی،رہاہی کے چند ہی دن بعد مولانا شمس الدین شہید جو اسوقت میوند میں پابند سلاسل تھے کی رہائی کے لییعلاقے کے ممتاز علماء کے ساتھ ملکر تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی جس کے نتیجے میں بالا آخر حکومت مولانا شہید کو رہا کرنے پر مجبور ہوئی بھٹو مرحوم کی آمریت کے خلاف مولانا میرک شاہ مرحوم نے جمعیت علماء اسلام اور بھٹو مخالف جماعتوں پر مبنی اتحاد متحدہ جمہوری محاز (یو ڈی ایف)کے پلیٹ فارم سے تاریخی اور بے مثال جدوجہد کی۔

مولانا مرحوم اتحاد کے ضلعی صدر بھی رہے،جولائی1974 میں ڑوب میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے جلسے میں گڑبڑ کے الزام میں مولانا میرک شاہ اور مولانا محمد اسحاق خوستی مرحوم گرفتار کر کے ان کے خلاف 16 ایم -پی -او اور 124 الف کے مقدمات درج کیے گیے،تقریباً ایک ماہ پر مشتمل عرصہ پس دیوار زندان رہنے کے بعد بلآخر بلوچستان ہائی کورٹ سے ضمانت منظور ہوہی اور وہ رہا ہوگئے،مولانا تو چلے گئے لیکن ان کی لازوال دینی،سیاسی اور ملی خدمات،اسلام کے دینی اور سیاسی غلبہ کی جدوجہد میں، ایک نمونہ کے طور پر ہمارے لیے مشعل راہ رہے گی،16اور17 جولائی کی درمیانی شب مرکزی جامع مسجد میں دوران امامت عشاء کی فرض کی ادائیگی کے بعد جائے نماز ہی پر اس دار فانی ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئے۔

اور یوں علم وسیاست کا یہ درخشندہ ستارہ اور وقار،متانت اور سنجیدگی کا یہ مجسم نمونہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا 17 جولائی کو ان کے رفیق اور سابق خطیب مولانا قاضی عبدالکریم آف کلاچی کی امامت میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی، مولانا شمس الدین شہید کے جنازہ کے بعد ڑوب کی تاریخ کا یہ دوسرا بڑا جنازہ تھا،اسی روز مولانا مرحوم سے اظہار عقیدت کے طور پر علاقے کی معمول کی کاروباری سرگرمیاں معطل اور فضاء سوگوار تھی،نماز جنازہ کے بعد ان کی آبائی قبرستان کلی اپوزئی میں تدفین ہوئی، اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے۔