وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ آٹے کی مناسب قیمت پر دستیابی کو ہر قیمت پر یقینی بنایا جائے۔وزیراعظم عمران خان نے یہ ہدایت اپنی زیر صدارت گندم اور چینی کی صورتحال پر منعقدہ اعلیٰ سطحی جائزہ اجلاس میں دی۔اجلاس میں وفاقی وزراء، معاون خصوصی جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ اور متعلقہ وزارتوں کے وفاقی سیکریٹریز نے شرکت کی جبکہ صوبوں کے چیف سیکریٹریز نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی شرکت یقینی بنائی۔اعلیٰ سطحی اجلاس میں گندم اورچینی کی دستیابی کی صورتحال اوران کی قیمتوں سے متعلق تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
شرکائے اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے اعلیٰ حکام نے بتایا کہ پنجاب حکومت روزانہ 15 ہزارمیٹرک ٹن سے زائد گندم فلورملزکو فراہم کررہی ہے۔اجلاس میں بتایا گیا کہ سرکاری طور پر گندم کی فراہمی سے قیمتوں پر بھی مثبت اثرات رونما ہوئے ہیں۔ اجلاس میں گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کی رپورٹ بھی وزیراعظم عمران خان کو پیش کی گئی۔وزیراعظم کی زیرصدارت منعقدہ جائزہ اجلاس میں 15لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد سے متعلق پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی کہ نجی شعبے کے ساتھ سرکاری طور پر بھی گندم کی درآمد کے عمل کو تیز کیا جائے۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ چینی کی وافر مقدار میں دستیابی اوراس کی مناسب قیمت پر فراہمی کو بھی یقینی بنایا جائے۔
اس سے قبل بھی وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر میں گندم کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا۔وزیراعظم عمران خان کا کہناتھا کہ گندم کی اسمگلنگ کی روک تھام کو مکمل طور پر یقینی بنایا جائے۔متعلقہ حکام کو ہدایت کی گئی کہ گندم کی وافر دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے بین الصوبائی کوآرڈی نیشن کو مزید بہتر کیا جائے۔گزشتہ دو سالوں کے دوران اگر حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو یقینا اتنے بہتر نتائج سامنے نہیں آئے کہ جن کی مثال دی جاسکے البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ جو دعوے کئے گئے تھے اس کے برعکس حالات سامنے آئے۔ ان دوسالوں کے دوران عوام سب سے زیادہ مہنگائی سے دوچار ہوئے ہیں۔اور جب حکومت میں شامل اہم ذمہ داران کے نام آٹااورچینی ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے سامنے آئے تو یہ امید کی جارہی تھی کہ بغیر کسی رعایت کے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی مگر گزشتہ ادوار کی طرح یہ معاملہ بھی سرد خانے کی طرف چلاگیا۔
اورکسی پر ہاتھ نہیں ڈالا گیاکیونکہ ماضی میں یہ دیکھنے کو ملاتھا کہ اہم شخصیات کو بغیر میرٹ کے نہ صرف اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا تھا بلکہ ان کو بڑے بڑے ٹھیکے بھی دیئے گئے تھے اوریہی وہ افراد ہیں جو آٹا اور چینی کے ذخیرہ اندوزی جیسے سنگین وارداتوں میں ملوث رہ چکے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں احتسابی عمل انتہائی کمزور ہے جس پر آج بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں جس کی واضح مثال سپریم کورٹ کا فیصلہ خواجہ برادران کے حوالے سے آیا جس کے بعد موجودہ حکومت اس پر قانون سازی کرنے جارہی ہے۔
مگر اہم بات یہ ہے کہ محض قانون سازی کرکے تسلی ہی دینا ہے یا بلاتفریق ان مافیاز کو کٹہرے میں لاکر سزا بھی دی جائے گی۔ بدقسمتی سے اب بھی اجلاسوں میں صرف فیصلے اور احکامات جاری کئے جارہے ہیں مگر مافیاز کے گرد گھیرا تنگ نہیں کیاجارہا اور نہ ہی عوام کو سستے داموں اشیاء خوردنی فراہم کی جارہی ہے۔تمام صوبوں کے اندر مافیاز سرگرم ہیں اور عوام کا خون چوس رہے ہیں لہٰذا عملی طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مافیاز گرانفروشی اور ذخیرہ اندوزی کرکے عوام کیلئے مزید مشکلات پیدا نہ کریں۔