چمن: پاک افغان سرحد کو جذبہ خیر سگالی کے تحت عید کے موقع پر دو دنوں کیلئے پیدل آمدورفت کیلئے باب دوستی کے مقام پر کھول دیاگیا جب تک دو مارچ سے پہلے والے روٹین پر سرحدپر پیدل آمدورفت واپس بحال نہیں ہوتا اس وقت تک دھرنا اور احتجاج جاری رہے گا، دھرنے کے شرکاء کا عزم تفصیلا ت کے مطابق پاک افغان سرحد پر پیدل آمدورفت کی بندش کے خلاف شدید احتجاج اور دھرنا اور گزشتہ روز احتجاجی ریلی۔
دھرنا کمیٹی کا سیکورٹی فورسز کے اعلیٰ حکام کے ساتھ مذاکرات بعد پاک افغان سرحد باب دوستی کے مقام پر عید کے موقع پر دو دنوں کیلئے پیدل آمدورفت بحال کردیاگیا جس میں پاکستان میں پھنسے ہوئے افغانستانی شہریوں اور افغانستان میں پھنسے ہوئے پاکستانی مسافروں کو آمدورفت کیلئے اجازت ہوگی جبکہ عید کے بعد پاک افغان حکومتوں کے اعلامیہ کے مطابق فیصلہ ہوگا جبکہ دھرنا کمیٹی کے شرکاء نے کہاکہ حکومت سے اب بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
کہ وہ پاک افغان سرحد کو گزشتہ دو مارچ سے پہلے والے روٹین پر کھولاجائے کیونکہ کروناء وائرس کی وباء کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر پاک افغان سرحد کو مکمل طورپر بند کردیاگیاتھا جبکہ مسلسل چھ مہینوں سے بند پاک افغان سرحد کی وجہ سے چمن میں مقامی تجارت اور رزگار مکمل طورپر تباہ ہوچکاہے چمن کے مقامی تاجر اور چھوٹے تاجروں کو شدید نقصان اٹھاناپڑرہاہے۔
دھرنا کمیٹی نے مزیدکہاکہ پاک افغان سرحد کو واپس دو مارچ سے پہلے والے روٹین پر پیدل آمدورفت اور تجارتی سرگرمیوں کیلئے واپس بحال کیاجائے کیونکہ چمن ضلع قلعہ عبداللہ اور ملحقہ افغانستان کے علاقوں سے کروناء وائرس کے کیسسز سامنے نہیں آئے ہیں اور اسی وجہ سے یہاں پر پاک افغان سرحد کو واپس دو مارچ سے پہلے والے روٹین پر واپس بحال کیاجائے تاکہ چمن کے تاجروں کوجو نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔
اس کا ازالہ کیاجاسکے دھرنا کمیٹی نے مزیدکہاکہ پاک افغان سرحد کو دو دنوں کیلئے کھولنے سے صرف مسافروں کو جانے کی اجازت دی گئی ہیں اور پاکستانی شہری جو افغانستان میں پھنسے تھے وہ اپنے گھروں میں عید مناسکے گے جبکہ ہمارا مطالبہ ہیں کہ پاک افغان سرحد کو پہلے والے روٹین کے مطابق پیدل آمدورفت کیلئے کھولاجائے کیونکہ پاک افغان سرحد کے دونوں جانب قبائل آباد ہیں۔
جن کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں اور سینکڑوں سالوں سے یہاں پر آباد ہیں ان کے باپ دادا یہاں پر آباد تھے اس لئے ہم دونوں حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ آسان طریقہ سے دونوں جانب آباد قبائل کو آنے جانے دیاجائے کیونکہ دونوں جانب ان کی زرعی زمینیں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی افراد افغانستان جاکر وہاں پر کچھ کماکر اپنے خاندان کی کفالت کررہے تھے مگر موجود حالات میں سرحد کی بندش سے یہاں دونوں جانب آباد قبائل شدید مالی آسودگی کے شکار ہوچکے ہیں۔