متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدے پر پاکستان کا ردِ عمل سامنے آیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ یو اے ای اور اسرائیل معاہدہ کا معاملہ ہمارے علم میں ہے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق میں ان کا حق خودارادیت شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان یو این، او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق دور یاستی حل کی حمایت کرتا ہے، اس معاہدے کے دور رس نتائج ہوں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک تاریخی امن معاہدہ ہوا ہے۔بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان امن معاہدہ کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا۔معاہدے کے تحت اسرائیل مغربی کنارے پر واقع فلسطین کے ان علاقوں پر دعویٰ سے دستبردار ہو گا جنہیں وہ ضم کرنا چاہتا تھا۔امن معاہدہ اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے مابین طویل گفت وشنید کے بعد ممکن ہوسکا۔معاہدے کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ تاریخی سفارتی پیشرفت مشرق وسطیٰ کے خطے میں امن کو آگے بڑھائے گی۔
یہ معاہدہ تینوں رہنماؤں کی جرات مندانہ سفارت کاری اور وژن کے باعث ممکن ہوسکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اسرائیل اور یو اے ای میں تاریخی امن معاہدہ ہوگیا۔ اسرائیل اور عرب امارات کے وفود اگلے ہفتے ملیں گے۔امن معاہدے کے مطابق آنے والے ہفتوں میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے وفود آپس میں ملاقات کر کے سرمایہ کاری، سیاحت، براہِ راست پروازوں، سلامتی، مواصلات، ٹیکنالوجی، توانائی، صحت، ثقافت، ماحولیات، سفارت خانوں کے قیام اور باہمی فائدے کے دیگر معاملات پر دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے دو سب سے متحرک معاشروں اور جدید معیشتوں کے درمیان براہِ راست تعلقات قائم ہونے سے معاشی ترقی ہو گی، ٹیکنالوجی میں نت نئی ایجادات ہوں گی اور عوام کے آپس میں تعلقات بہتر ہوں گے جس سے خطہ بدل جائے گا۔اس کے علاوہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مجوزہ امن منصوبے ’ویژن فار پیس‘ میں متعین کردہ علاقوں پر اسرائیل اپنی خود مختاری کا دعویٰ بھی روک دے گا۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ اس منصوبے میں اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں اور اسٹریٹجک اعتبار سے اہم وادی اردن کے اسرائیل میں انضمام کے اسرائیلی منصوبے کی حمایت کر چکے ہیں۔دوسری جانب فلسطینیوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام ان کی آزاد ریاست کی امیدیں ختم کر دے گا۔
او یہ ر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوگا۔بہرحال اس معاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ سب سے پہلے اپنے مفادات کو مقدم رکھا جاتاہے جوکہ یواے ای نے کیا ہے مگر کیا اس امن معاہدے کے حوالے سے دیگر عرب ممالک کی جانب سے نفی میں ردعمل آئے گا یا پھر وہ اس معاہدے کی حمایت کرینگے جوکہ فی الوقت کہنا قبل ازوقت ہوگا مگر دیگر مسلم ممالک کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔
اس تمام صورتحال کی ایک بڑی وجہ مسلم ممالک کی بنائی گئی تنظیم کی کمزوریاں ہیں اوآئی سی اس کی واضح مثال ہے اگر مسلم ممالک میں بعض معاملات پر خود اتفاق رائے پایاجاتا تو شاید یہ معاہدہ بھی نہ ہوتا، دم توڑتی مسلم ممالک کی اتحادآنے والے دنوں میں مزید مسلم ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے جس پر خود مسلم ممالک کے سربراہان کو غور کرنا ہوگا۔