|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2020

یار کورونہ وائرس نے زندگی عذاب بنادی اب ویسے بھی کلاسز نہیں ہونگے اس لیے میں نے سوچا ہے کچھ ٹائم اپنے گھر جاکر گزارا جائے،وہاں میری ماں، میرے بابا اور بھائی بہن کب سے میرے منتظر ہیں۔ مجھے اپنے بلوچستان کی مٹی یاد آرہی ہے مجھے اپنی زمین سے پیار ہے، میں بلوچستان ہوں، ویسے بھی اب کراچی یونیورسٹی میں میرا آخری سال ہے اس کے بعد میں سی ایس ایس کر کے ملک اور قوم کا نام روشن کرونگا۔ چہرے پر ہمیشہ مسکان رکھنے والا جوان جو یاروں کا یار اور محفل کی جان بھی تھا سب دوستوں سے الوداع کیا اور کراچی سے تربت کا سفر شروع کیا۔

دل میں نئے خواب سجائے ماں باپ کی آس دل میں سجائے یہ جوان اپنی زندگی کے آخری سفر پر گامزن تھا، حیات بلوچ جیسے ہی سرزمین تربت پر پہچا تو اس کی آنکھوں سے اشک جاری تھے۔ سب گھر والوں نے اسے خوش آمد یدکہا اور اس طرح سے وہ اپنے خواب اور دل کی باتیں گھر والوں سے کہتا رہا۔۔ہائے افسوس زندگی بیوفا ہے!! گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ حیات بلوچ اپنے والد کے ساتھ کھجور کے باغ میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا چونکہ یونیورسٹی کی چھٹیاں تھی لیکن وہ کیا ہی بد نصیب لمحہ تھا جب جمعرات کو تقریباً 11، ساڑھے 11 بجے کے قریب جس باغیچے میں حیات کام کر رہا تھا۔

اس کے قریب سڑک پر سے فرنٹیئر کور کی گاڑی گزر رہی تھی جب اچانک دھماکہ ہوا۔ دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغیچے میں گھس آئے اور انھوں نے حیات بلوچ کے والد کے بقول ’حیات بلوچ کو تھپڑ مارے‘۔”اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے گئے اور روڈ پر لا کر آٹھ گولیاں ماری گئیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا” اطلاعات کے مطابق اس خون ناحق کے الزام میں پیراملٹری فورس فرنٹیئر کور کے ایک اہلکار کو حراست میں لے لیا گیا ہے!!!جشن آزادی مناؤ کے مجھے ابھی جنازہ اٹھانا ہے میں بلوچستان ہوں مجھے جینے دو۔۔