|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2020

اگر آپ کا ما ضی آ پ کے مستقبل کیلئے ایک Guidlineہے یعنی ر ہبر ہے را ستہ دکھا نے والا ہے تو سمجھیں وہ خو بصو ر ت ما ضی ہے۔اور اُ س کا حسن آپ مستقبل میں کھو تے ہو ئے دیکھ رہے ہیں اور ما ضی کے لو گ، رشتے، قد ر یں، علم و آ گا ہی، ہر مید ا ن کی پیشہ وارا نہ صلا حتیں آ پ کو کہیں نظر نہیں آ رہیں، آ پ اُ س کی تلا ش میں سر دھڑ کی با ز ی لگا رہے ہیں مگر اُ س کا کو ئی سر ا ہا تھ نہیں آ رہا۔ تو پھر کہنا پڑ تا ہے

یا د ِ ما ضی عذا ب ہے یا رب ؔ
چھین لے مجھ سے حا فظہ میر ا

ما ضی کا ایسا ہی ایک رشتہ ایک عظیم انسا ن، ایک استا د، ایک صحا فی اور جلیل القد ر ما ضی کی پہچا ن صد یق بھا ئی ہیں۔

صد یق بلو چ کا تعا ر ف یقینا ایک چھو ٹے سے کا غذ کے ٹکڑ ے کو سیا ہ کر نے سے کہیں زیا دہ تفصیل طلب ہے اس مضمو ن کو پڑ ھنے والے قا ر ئین کیلئے ہی نہیں بلکہ اُ س صحا فی کیلئے صدیق بھا ئی کو پیش کیا جا نے والا یہ خرا ج عقید ت سب سے زیا دہ سبق آ مو ز ہے۔ جس نے صحافت کے پیشے کی روح کوہی نہیں سمجھا بلکہ وہ صر ف اُ س کے جسم کے پیچھے دو ڑ رہا ہے اور بغیر رو ح کا یہ صحا فتی جسم ایک سا نس لیتی ہو ئی میت اور حر کت کر تے ہو ئے جنا ز ے کے سوا کچھ نہیں۔

اُ ن کے بیٹے عار ف بلو چ جو خو د بھی ایک صحا فی ہیں اور اپنے والد کی ورا ثت کو سنبھا لے بہت قا ئد قر ینے سے اپنے دو اخبا ر ایک انگر یز ی کا بلو چستا ن ایکسپر یس اور دوسر ے ار دو کا Daily Azadi کا اجرا ء کوئٹہ سے ہو رہا ہے۔ عا ر ف نے مجھے جب یہ بتا یا کہ وہ صد یق بلو چ صاحب کا بیٹا ہے اور اُ ن کا انتقا ل ہو گیا ہے تو مجھ پر گو یا ایک بجلی سی گر ی اس لئیے نہیں کہ اُ ن سے میر ا کو ئی خو ن کا قر یب تر ین رشتہ تھا بلکہ مجھے ایسے لگا کہ ایک لمحے کیلئے جو کیفیت مجھ پر طا ر ی ہو ئی وہ اپنے والد کے جا نے کے بعد سے ہر ہر قد م پرآ ج تک طا ر ی ہو جاتی ہے جب بھی اُ ن انسا نی اور اخلا قی اعلیٰ تر ین قدرو ں کی حا مل شخصیا ت کے جا نے کی خبر مجھے ملتی ہے۔حا لا نکہ مو ت تو بر حق ہے مگر کس کی مو ت؟ وہ جنہیں

” ڈھو نڈ و گے اگر ملکو ں ملکو ں، ملنے کے نہیں نا یا ب ہیں ہم”

اس خبر کے سا تھ ہی عار ف سے میں نے تعز یت کر کے جب فو ن رکھا تو آ ج سے 36بر س قبل محکمہ اطلا عات سند ھ سے لیکر 2003سے 2006تک بلو چستا ن کو ئٹہ میں اپنی پوسٹنگ تک صد یق بھا ئی کی عظمت، محبت،اُ ن کی پیشہ وارا نہ اقدار میر ے استا د میر ے عز یز بھا ئی کی حیثیت سے یہ 36بر س ایک فلم کی طر ح میر ی نظرو ں سے گز ر ناشرو ع ہو گئے۔ یہ 1983کا زما نہ تھا جب جنر ل ضیا ء الحق صا حب کے مار شل لاء کی حکو مت کا ایک سر کو لر آ تا ہے

کہ جو محکمہ اطلا عا ت میں وفا ق اور صو بے کی سطح پر سر کا ر ی ملا ز مت سے وا بستہ ہیں اُ ن کیلئے جر نلز م میں ماسٹرز کی ڈگر ی لا ز می قرا ر دے دی گئی ہے لہذ ا حکو مت ان ملا ز مین کوe Study Leavبھی دینے کیلئے تیا ر ہے میں نے سو چا کہ میں یہ مو قع ہا تھ سے نہ جا نے دو ں اورe Ex.Pakistan Study Leavلیکر با ہر چلی جا ؤ ں اور وہا ں سے ماسٹر ز کر لو ں توصد یق بھائی پہلے آ د می تھے جنہو ں نے میر ی حوصلہ افز ائی کی کہ تمہیں ضر و رجا نا چا ہیے و ر نہ میر ے دفتر کے اکثر سا تھی اور صحا فیو ں نے اس کی مخالفت کی۔

میر ے والد نے بھی یہ کہا کہ بہتر ہو گا کہ تم ما سٹر ز یہیں کرا چی یو نیو ر سٹی سے کر لو اور اگر Phd کیلئے جا نا ہے تو پھر با ہر چلی جا نا۔ میں نے صد یق بھا ئی سے مشور ہ کیا تو وہ کہنے لگے با لکل صحیح را ئے ہے تمہا ر ے والد کی پھر پو چھنے لگے کیا تم Phdکا بھی ارا دہ رکھتی ہو۔ کیا نیو ز اور کر نٹ افیئرز میں؟ یہ اُنھو ں نے اس لئے پو چھا کہ میں اُ س وقت PTVسے خبر یں پڑ ھا کر تی تھی۔میں نے صد یق بھا ئی سے کہا نہیں میں Electronic Media as a whole اور PTVڈرا مے کے پاکستا نی معا شرے پر ہو نے والے اثرا ت پر تحقیقی کا م کر نا چاہتی ہو ں۔ اس طر ح میں نے کرا چی یو نیو ر سٹی میں دا خلہ لے لیا، شا م کو میں دفتر آ جا تی چونکہ اخبار ا ت کے سینسر کا سلسلہ جا ری تھا تو محکمہ اطلا عا ت میں دو شفٹو ں میں کا م ہو تا تھا۔ صد یق بھا ئی نے Basic Journalistic Theories اور Muslim World and International Journalism Contemporary کے
مضا مین میں میر ی جتنی مدد کی میں یقین سے کہہ سکتی ہو ں کہ اُ س وقت کے انگر یز ی اور اُ ر دو کے معر و ف صحا فی ایسا موا زنہ پیش نہیں کر سکتے تھے۔

میں حیرا ن رہ گئی کہ ان کا مطا لعہ اس حوالے سے اتنا وسیع تھا کہ یہ یقین کر نا مشکل تھا کہ وہ کرا چی کے اُ س مظلو م پسما ند ہ علا قے لیا ر ی سے تعلق رکھتے ہیں جو در اصل، اصلی اور پرا نا کرا چی ہے۔ جہا ں کبھی کسی حا کم وقت نے تعلیم تو دو ر کی با ت ہے زند گی کی بنیا د ی سہو لیا ت تک اُ س لیا ر ی میں فرا ہم کر نے کی ضرو ر ت محسو س نہیں کی جس کا المیہ ہم آ ج بھگت رہے ہیں۔ ہمار ا ایک اور سا تھی انفار میشن آ فیسر یو سف بلو چ بھی لیا ر ی میں رہتے تھے

اُ س کی زبا نی جب صدیق بھائی کے رہن سہن اور طر ز زند گی کی با بت پتہ چلا تو اُ ن کی در و یشی طبیعت جا ن کر مجھے اُ ن سے ایسی عقید ت ہو گئی کہ جب بھی مجھے دفتر کے سا تھیو ں، حکو مت سند ھ کے کچھ اعلیٰ افسرا ن اور اپنے صحا فی بھا ئیو ں کے طر ز عمل سے متعلق کو ئی تکلیف پہنچتی تو میں صر ف صدیق بھا ئی اور اپنے ایک کو لیگ عشر ت صد یقی سے جو آ ج بھی سند ھ میں محتسب اعلیٰ کے محکمہ میں DGہیں۔

صر ف ان دو حضرا ت سے مشو ر ہ کر تی۔صدیق بھا ئی ہمیشہ ایک با ت کہتے تھے کہ “دیکھو بیٹا میں دیکھ رہا ہو ں کہ تمہیں بہت آ گے جا نا ہے تمہا ر ا تعلق ایک بہتر ین کھا تے پیتے خا ند ان سے نظر آ تا ہے اور تم ڈا ئیریکٹ آ فیسر ہو یہا ں ایک تو زیا دہ تر کلر ک سے تر قی کر کے ریٹا ئر منٹ کے قر یب افسری تک پہنچنے والے اور صحا فی حضر ا ت بھی انہی کی کیٹگر ی سے ہیں مگر یہا ں بہت اچھی شہر ت کے حا مل افسرا ن اور ہمار ی برا د ر ی کے صحا فی بھی ہیں تمہیں اُ ن کے نقش قد م پر چلنا ہے اور اُ ن سے کچھ سیکھنا ہے جو تمہا ر ی پو ز یشن سے حسد رکھتے ہیں وہ پیچھے رہ جا نے والے لو گ ہیں۔ جب تم آ گے بڑ ھو گی تو تمہیں پیچھے مڑ کے دیکھنے کی فر صت بھی نہیں ہو گی۔ یہ مسا ئل ہر آ گے بڑ ھنے والے کو در پیش ہو تے ہیں اُ ن کو سر پر سوا ر کر نے اور رنجید ہ ہو نے سے تمہا ر ی مثبت صلا حیتیں متا ثر ہو ں گی ” مجھے ایسے لگا جیسے صد یق بھا ئی کے اند ر میر ے پا پا کی رو ح منتقل ہو گئی ہے۔

چو نکہ پا پا کی اور اُ ن کی نصیحتو ں میں کو ئی فر ق نہ تھا، یو ں صد یق بھا ئی کی پیشن گو ئی پو ر ی ہو گئی اور میں نے جب اپنے Phdکی تیار ی شر وع کی تو 1988؁ میں پا پا مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور مجھے لگا کہ میر ی آ گے بڑ ھنے کی سا ر ی صلا حیتیں اُ ن کے ساتھ ہی منوں مٹی تلے دفن ہو گئیں مگر وقت نے کر و ٹ بدلی اور میر ی ما ں کے علا وہ میر ے عز یز و اقا ر ب، محکمہ اطلا عا ت میں میر ے دوست شیر یں، مشعل، رضیہ حسن، عشر ت صد یقی اور سب سے بڑ ھ کر صد یق بھا ئی کا مشو ر ہ تھا کہ تمہیں اپنے پا پا کے خوا بو ں کی تعبیر اپنی تعلیم مکمل کر کے اُ ن کی رو ح کو تسکین پہنچا نے کے سوا کچھ نہیں ہو نی چا ہیے۔ صد یق بھا ئی کو میں نے کبھی نہ کسی کی غیبت کر تے سنا،نہ کسی سیا ست دا ن کو سکینڈ لا ئن، نہ حکو متو ں کو بلیک میل، نہ اپنے کسی سا تھی سے حسد، نہ پلا ٹو ں کے حصول کی سیا ست میں ملو ث دیکھا۔

وہ نہ پیلی صحا فت کو بُر ا کہتے، نہ کسی حا کم کی خو شا مد کر تے بس اپنی دھن میں مگن ایک ملنگ کی طر ح اپنے علا قے لیا ر ی کی عز ت بڑ ھا نے میں سر گر دا ں نظر آ ئے اور میں 1993؁ء میں سند ھ حکو مت چھو ڑ کر جب الیکشن کمیشن میں 400اُمید وار و ں میں میر ٹ پر مقا بلہ کر کے گر یڈ 17سے 19پر تعینا تی کا نو ٹیفیکیشن جیسے ہی میر ے ہا تھ میں آ یا تو سب سے پہلے اپنے والد کی قبر پر گئی اور وا پس آ کر پہلا ٹیلیفو ن میں نے صد یق بھا ئی کو کیا۔ وہ کہنے لگے اب یقین آ گیا کہ میں نے تم سے کہا تھا کہ تمہیں آ گے بڑ ھنا ہے اور یہ بھی یا د رکھنا کہ یہ ادا ر ہ ایسا اسکول ہے جہا ں تمہیں سیکھنے، پاکستان کی پو ر ی سیا ست کو سمجھنے،دا رالحکو مت کی اعلیٰ تر ین بیو ر وکریسی میں کا میا بی کے گُر سیکھنے میں مدد ملے گی یہ وہی بیو ر و کر یسی ہے جو کبھی خود اور زیا د ہ تر سیاستد ا نو ں سے ملک کی قسمت کے فیصلے کر وا تی ہے۔

پھر میں اسلا م آ باد چلی گئی اور کبھی کبھی صد یق بھا ئی سے ٹیلیفو ن پر را بطہ رکھتی۔2003؁ء میں جب میر ی تعینا تی صو با ئی الیکشن کمشنر بلو چستا ن کی حیثیت سے ہو ئی تو وہا ں چا ر ج لیتے ہی ملک کے تمام بڑ ے قومی اخبارات نے ایسی پذیرا ئی کی کہ میں حیرا ن رہ گئی مگر ایک اخبا ر بلو چستا ن ایکسپر یس نے جو خرا ج تحسین مجھے پیش کیا کہ الیکشن کمیشن کی تار یخ میں یہ پہلی خا تو ن صو با ئی الیکشن کمشنر ہیں او ر وہ بھی بلو چستا ن جیسی جگہ پر جہا ں کو ئی الیکشن کمشنر قتل ہو ا تو کسی کو وقت سے پہلے کھڑکی سے چھلا نگ لگا کر اسلام آبادکیلئے ائیر پو ر ٹ دو ڑ نا پڑ ا۔ مگر جو صحا فتی حلقے اس خا تو ن کو جا نتے ہیں اُ ن کا دعو یٰ ہے کہ وہ نہ صر ف یہا ں سے عز ت و آ بر و سے رخصت ہو نگی جو ان کا حق ہے بلکہ بہتر ین کا م کر یں گی اسی لیے بلو چستا ن کے لو گو ں کی خصو صی دعا ئیں بھی ان کے ساتھ شا مل ہو نگی۔

مجھے بڑ ی حیر ت ہو ئی کہ آ خر یہ کو ن سے صحا فی حضرا ت ہیں یہا ں کے جو مجھے اتنی اچھی طر ح جا نتے ہیں، میں نے اپنے PROکو بُلا یا اور پو چھا کہ یہ بلو چستا ن ایکسپر یس کس کا اخبار ہے۔ اُ س نے کہا یہ صدیق بلوچ کا اخبار ہے۔ دو سر ے د ن جب صد یق بھا ئی کی آ وا ز فو ن پر مجھے یہ کہتے سنا ئی دی،دیکھا نسر ین ہم نے کہا تھا نہ کہ تمہیں بہت آ گے جا نا ہے تو میں خو شی سے نہا ل ہو گئی اور اپنا گھر چھو ڑ نے کا دکھ کم ہو گیا۔ صد یق بھا ئی نے دو سر ے دن پر یس کلب میں مجھے کھا نے پر مد عو کیا اور وہا ں کے تمام میڈ یا کے لو گو ں سے میر ی ملا قا ت کر و ا ئی، میر ی تعینا تی کے سا رے دو را نیے میں اگر پر یس سے میر ے بہتر ین روا بط رہے تو اُ س میں صد یق بھا ئی کی شفقتیں ذر یعہ بنیں۔میں جب بھی اُ ن کا شکر یہ ادا کر تی تو وہ کہتے کہ نہیں یہ تمہار ا میرٹ اور تمہا ر ے PROکا کمال ہے۔

صد یق بھا ئی کی اعلیٰ ظر فی یہ تھی کہ وہ کبھی کر یڈٹ لینے کی دو ڑ میں مجھے نہیں نظر آ ئے میر ی تعینا تی کے تین چار دن بعد جب پرنس روڈ پر واقع امام با ر گا ہ کلاں پر پہلا بم دھما کہ ہو ا میں اُ س سے صر ف ایک گھنٹہ پہلے ہی امام با ر گا ہ سے نکلی تھی،دفتر پہنچی تو پہلا ٹیلیفو ن صد یق بھا ئی کا تھا اُ نہو ں نے کہا مجھے گمان تھا کہ تم ضرور وہا ں ہو نگی مگر میر ی با ت یا د ہے کہا تھا کہ خدا تم پر ہمیشہ مہر با ن رہے گا، پھر وہا ں بد امنی میز ائل پھٹنے کے وا قعا ت اس تواتر سے پیش آ نے لگے کہ میری فیملی بلخصو ص میر ی ما ں بے حد پر یشا ن ہو گئیں اور انہو ں نے کہا کہ تم واپس آ جا ؤ، استعفیٰ دینا پڑ ے تو وہ بھی دے دو۔ میں نے صد یق بھا ئی سے مشو ر ہ کیا،یہ میر ا وہا ں دو سر ا سال تھا انہو ں نے کہا کہ تم جس لگن سے یہا ں کا م کر رہی ہو تم نے شہر ی علا قو ں سے 23%وو ٹ بینک بڑ ھا یا ہے جو کبھی کو ئی صو با ئی الیکشن کمشنر نہیں کر سکا۔

یہا ں سب سردارو ں سے خو فزد ہ رہتے تھے تو میں یہ کہو ں گا کہ انشا ء اللہ تم سلا مت رہو گی اور اب تو یقین ہو گیا ہے کہ خد ا تم سے کو ئی بڑ ا کام لینا چا ہتا ہے اس لئیے اُ س کی ذا ت سے ما یوس مت ہو اُ س کے اشار ے کو سمجھو مگر 2005کے اختتام تک مو سم کی شدت اور اسلا م آباد کے دفتر ی حسد میر ی کا میا بی سے خو فز دہ لوگو ں کے رو یو ں نے بیمار کر ڈا لا اور وہا ں کچھ طبی سہو لیا ت نہ ہو نے کی وجہ سے جب میں میڈ یکل Leaveکیلئے اسلا م آباد با ت کر تی تو کہا جا تا آ پ لمبی چھٹی لے لیں۔بلو چستا ن کے جج ممبر ز اور چیف الیکشن کمیشن جسٹس عبد الحمید ڈو گر کو سا تھ ملا کر الیکشن کمیشن کو بد دیا نتیو ں کی آخر ی سطح تک پہنچا نے والے مجھ سے اور میر ے کا م سے سخت تنگ تھے اور وہ کا میا ب ہو گئے۔ مجھے ترقی کی بجا ئے تنزلی کا تحفہ دیا گیا۔

یہ بجا ئے یہ کہنے کے کہ آ پ ہمار ی بدد یا نتیو ں کے را ستے میں رکا و ٹ بن رہی ہیں خط لکھا گیا کہ آ پ جج ممبر ز کو لینے اور چھو ڑ نے ائیر پو ر ٹ نہیں جا تیں،اس لئے آ پ کی تنز لی کا فیصلہ کر تے ہو ئے آ پ کو وا پس کرا چی بھیجا جا تا ہے ابھی میں جوا ب لکھنے ہی والی تھی کہ میں ان جج صا حب کی پرو ٹوکول کی ڈیو ٹی کیلئے یہاں نہیں ہو ں،اس کا م کیلئے پر و ٹو کو ل کا سٹا ف مو جو د ہے وہ