کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے کہا ہے کہ کسی ادارے سے انصاف کی توقع نہیں، صوبے کے لوگ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے جبر ناانصافیوں قتل وغارت گری کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ہمیں حیات بلوچ کے خون کو انصاف یکجہتی، تعلیم،ترقی کا سیلاب بناکر جبر ظلم اور نام نہاد نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کو بہاکر لے جانا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتے کے روز کوئٹہ پریس کلب کے سامنے کراچی یونیورسٹی کے طالب علم حیات بلوچ کے قتل کیخلاف طلباء تنظیموں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیامظاہرے سے چیئرمین بی ایس او نذیر بلوچ، صوفی عبدالخالق، مزمل،نادیہ، نور باچا، جلیلہ حیدر، اورنگیز، ڈاکٹر مارنگ بلوچ، حسیبہ قمبرانی، کبیر افغان، زبیر شاہ، جان باز مری ودیگر نے بھی خطاب کیا۔
اس موقع پر نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی نے مزید کہا کہ سات دہائیوں سے بلوچستان کے لوگ اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے تمام تر جبر ناانصافی قتل وغارت گری کا مقابلہ کررہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی سرزمین پر حیات بلوچ کا خون بہایا گیا اس خون کو ہمیں رائیگاں نہیں جانے دینا یہاں کے مظلوموں کیلئے انصاف یکجہتی، تعلیم،ترقی کا انقلاب بناکر لاچارگی ناانصافی قتل وغارت گیری کا راستہ روک کر۔
جبر ظلم اور نام نہاد نمائندگی کا دعویٰ کرنے والوں کو بہاکر لے جانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیات بلوچ کی شہادت پر نام نہاد آزاد میڈیا خاموش رہا جبکہ پنجاب میں پتھراؤ سے گاڑی کے شیشے ٹوٹنے کے واقعہ پر الیکٹرانک میڈیا میں مسلسل پروگرامز نشر کئے جاتے رہے۔ نوبزادہ لشکری رئیسانی نے کہا کہ بلوچستان حکومت میں شامل وزراء وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں جبکہ نمائندگی سیکورٹی ادارہ کا سربراہ کررہا ہے۔
صوبے کی نمائندگی کے دعویدار صوبائی وزراء اور وزیراعلیٰ میں سے کوئی ایک حیات بلوچ کے خاندان سے ہمدری کرنے نہیں گیا، بلوچستان حکومت کے پاس نہ تو اختیار ہے نہ اجازت کہ حیات بلوچ کے خاندان کے پاس جاکر ہمدردی کرے اور جو گیا اس کو متاثرہ خاندان سے نہیں بلکہ اس اہلکار سے ہمدری ہے جس کے ہاتھوں حیات بلوچ شہید ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں حیات بلوچ کے قتل کیخلاف نکلنے والے طلباء کو اپنی تحریک آگے بڑھاتے ہوئے حیات کے خون کو رائیگا ں نہیں جانے دینا کیونکہ اس ملک میں کسی بھی واقعہ میں ملوث ملزمان یا تو پکڑے نہیں جاتے اگر پکڑے بھی جاتے ہیں تو رہا کردیئے جاتے ہیں جس کی مثال راؤ انور کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی ادارے سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔
اگر توقع ہوتی تو یہاں اجتماع نہ کرتے ہمیں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو مزید منظم اور تیز کر نے کی ضرورت ہے تاکہ آئند ہ کوئی ماں اپنے شہید بچے کو قتل ہوتے نہ دیکھے۔ انہوں نے کہا کہ حیات بلوچ کے قتل کیخلاف پوری دنیا میں آواز بلند کی جائے تاکہ قاتلوں کو سزا ہو اور آئندہ کوئی صوبے کے تعلیم یافتہ طبقہ، وکلاء، نوجوانوں اور سیاسی کارکنوں کا خون نہ بہائے۔