|

وقتِ اشاعت :   August 29 – 2020

کراچی میں جمعرات کو ریکارڈ بارش ہوئی، اس سے پہلے 26 جولائی 1967 کو سب سے زیادہ یعنی 211 ملی میٹر بارش ہوئی تھی۔محکمہ موسمیات کے مطابق سب سے زیادہ بارش پی اے ایف فیصل بیس پر 230 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی، سرجانی ٹاؤن میں 193،کیماڑی میں 169، نارتھ کراچی میں 166، ناظم آباد میں 162 صدر میں 142 اور لانڈھی میں 126 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔کراچی شہرکے متعدد علاقوں میں پانی کے بڑے بڑے جوہڑ موجود رہے، شہر کے بزنس حب آئی آئی چندریگر روڈ پر بدستور گھٹنوں گھٹنوں پانی موجود رہا۔

شارع فیصل پر اسٹار گیٹ سے ائیر پورٹ جانے والے راستے پر پانی جمع ہے، گورنر ہاؤس روڈ، آرٹس کونسل روڈ، اولڈ سٹی ایریا، نیپا، یونی ورسٹی روڈ، صفورا چورنگی، ریس کورس، سرجانی ٹاؤن، ناگن چورنگی، سہراب گوٹھ، ایم اے جناح روڈ، صدر، کھارادر اور ڈیفنس کے علاقوں میں بھی اطلاعات کے مطابق برساتی پانی اب بھی سڑکوں اور گلیوں میں موجود ہے۔کراچی کے علاقے گلستان جوہر میں بھی رہائشی کالونی میں پانی آنے سے مکین محصور ہو کر رہ گئے۔بارش کے بعد کراچی میں بعض مقامات پر موبائل فون سروس متاثر ہوا جبکہ شہر میں بجلی فراہمی معطل ہو گئی، بیشتر علاقوں میں 24 گھنٹے سے زائدکا عرصہ گزرنے کے باوجود بجلی کی فراہمی تاحال معطل ہے۔

پی ایم ٹیز، کیبل فالٹس اور سب اسٹیشنوں میں پانی بھرنے سے شہر میں بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی، ڈیفنس، صدر، رتن تلاو، لانڈھی، اورنگی، کورنگی، ملیر، گلشن جمال، پی ای سی ایچ ایس، گارڈن، لائنز ایریا، گلشن اقبال، گلستان جوہر،،شاہ فیصل کالونی اور بن قاسم، نارتھ ناظم آباد، ناظم آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی،لیاری سمیت مختلف علاقے بجلی کی طویل بندش سے متاثر ہیں جس پر ترجمان کے الیکٹرک کا کہناہے کہ شہر میں بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں بجلی بحالی کا عمل جاری ہے۔دوسری جانب بلوچستان میں بھی بارشوں نے تباہی مچاکر رکھ دی ہے۔

جس میں لوگوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ مکانات کو نقصان بھی پہنچا ہے اسی طرح کھڑی فصلیں تباہ ہوکر رہ گئی ہیں اس کے ساتھ ہی شاہراہوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس سے ایک علاقہ کا دوسرے علاقوں سے رابطہ منقطع ہوکر رہ گیا ہے۔بہرحال اب صورتحال کنٹرول میں ہے بارش کے باعث متاثرہ علاقوں میں ریسکیو کا کام جاری ہے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل کردیاگیا ہے مگر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بارشوں سے نمٹنے کیلئے بروقت اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ایک مثال کراچی ہمارے سامنے ہے جس پر گزشتہ کئی دنوں سے سیاست ہورہی ہے مگر لوگوں کے مسائل کے وقت نمائندگان دکھائی نہیں دیتے۔حالیہ بارشوں کے دوران بھی بجائے مشترکہ کام کرنے کے ایک دوسرے پر کراچی کے مسائل کا ملبہ ڈالنے کی کوشش کی گئی،کراچی کے عوام کا شکوہ بھی یہی ہے کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہرکا کوئی پرسان حال نہیں یہاں تک کہ وہاں پر سیوریج کے نظام کو آج تک بہتر نہیں بنایاجاسکا۔کراچی جو کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا اب کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

اور شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے۔ کراچی کے مسائل کا حل ترجیحات میں ہونا چاہئے ناکہ اس پر سیاست کرتے ہوئے کبھی اسے مرکز تو کبھی انتظامی امور کانام دیکر الگ صوبے کی بات کی جائے۔ کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس شہرکی رونقوں کو بحال کرنے کیلئے سیاست سے ہٹ کر کام کریں تب جاکر مسائل حل ہونگے وگرنہ کراچی کے نام پر سیاست اسی طرح چلتی رہے گی اور عوامی مسائل جوں کے توں رہینگے جس کی ذمہ دار کسی ایک جماعت کو قطعاََ نہیں ٹہرایاجاسکتا بلکہ وہ تمام جماعتیں جو کراچی پر عرصہ دراز سے حکومت کرتی آرہی ہیں وہ سب اس کے ذمہ دار ہیں۔