ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے ایک بار پھر پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کیلئے کمرکس لی ہے اور اس حوالے سے اتحادیوں کے ساتھ ملکر ایک مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے پر غور کیاجارہا ہے جس میں دوآپشنز خاص کر زیرِ غور ہیں جس میں اِن ہاؤس تبدیلی یا ازسرنو انتخابات شامل ہیں۔اس سے قبل بھی اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کیخلاف تحریک چلانے کی کوشش کرچکی ہیں مگر انہیں کامیابی نہیں ملی، نواز شریف کو جب نااہل کیا گیا تو اس دوران مسلم لیگ ن اپنی اس جنگ کو اکیلے لڑتا رہا اور نوازشریف ملک بھر میں جلسے جلوس کی قیادت کرتے دکھائی دیئے۔
جبکہ پیپلزپارٹی اس تمام معاملے سے دور رہی اور نوازشریف کو جیل بھی جانا پڑا۔ بعدازاں نوازشریف کی ووٹ کو عزت دو کی تحریک زیادہ مؤثر ثابت نہ ہوسکی اور جب نوازشریف جیل چلے گئے تو ان کی طبیعت کا معاملہ سامنے آیا جس پر مسلم لیگ ن کی پوری قیادت نے تمام تر زور نوازشریف کی بیرون ملک علاج پر جانے کیلئے لگائی۔اس دوران ن لیگی رہنماؤں نے نوازشریف کی طبیعت کو انتہائی ناساز قرار دیا کہ اگر مزید انہیں جیل میں رکھاگیا تو ان کی جان بھی جاسکتی ہے اسی دوران میڈیکل بورڈز تشکیل دی گئیں۔
اور ٹیسٹ کرانے کے بعد حکومتی بورڈبھی اس نتیجہ پر پہنچی کہ نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کم ہیں اور صحت کی خرابی کامسئلہ گھمبیر ہے لہٰذا ان کے علاج کو ترجیح دی جائے جس کے بعد ضمانت پر انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی اور یوں نوازشریف ملکی جو سیاست پر زیادہ چھائے دکھائی دے رہے تھے یکدم سے خاموشی چھاگئی، مگرجب نوازشریف لندن پہنچے اور وہاں ان کی چند ملاقاتوں کی تصاویر سامنے آئیں تو سوالات اٹھنے شروع ہوئے کہ بیماری کا ڈرامہ رچایا گیا تاکہ نوازشریف کو بیرون ملک بھیجا جاسکے۔
جب مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اس کے پیچھے بھی نوازشریف کی سازش اور حمایت کے تذکرے سامنے آئے مگر اس دھرنے میں مسلم لیگی قیادت کی دلچسپی کم دیکھنے کو ملی اور یوں مولانا فضل الرحمان کا حکومتی تختہ الٹنے اور استعفیٰ کے مطالبات دھرنے کے دوران زیادہ کارآمد ثابت نہ ہوسکے اور یوں اپوزیشن کو ایک اور معرکہ میں شکست کا سامنا کرناپڑا۔ بہرحال پیپلزپارٹی کی بھی اس دھرنے سے خاص لگاؤ دیکھنے کو نہیں ملی اب ایک بار پھر ملک کی دو اہم بڑی اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی موجودہ حکومت کو گرانے کیلئے منصوبہ بندی کرنے لگی ہیں۔
جس کی واضح جھلک گزشتہ روز دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والی ملاقات اور بات چیت میں نظر آتی ہے۔ کراچی میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، صدر پیپلزپارٹی آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی اہم بیٹھک لگی جس میں تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کیلئے مختلف آپشنز زیر غور آئے۔اطلاعات کے مطابق آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے ان ہاؤس تبدیلی کی تجویز دی اور کہا کہ حکومت کے خاتمے کے لیے ان ہاؤس تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ملاقات میں شہباز شریف اور (ن) لیگ نے تجویز دی کہ عمران خان کی حکومت کو ابھی مزید کام کرنے دیا جائے، یہ عمران خان اپنے بوجھ سے گریں تو بہتر ہوگا، یہ حکومت جتنی دیر رہے گی مزید بدنام ہوگی۔شہباز شریف نے کہا کہ اِن ہاؤس تبدیلی کی بجائے نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے، اِن ہاؤس کی بجائے عبوری سیٹ اپ آئے جو نئے الیکشن کرائے۔اس ملاقات میں ہونے والی بات چیت سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت گرانے کے حوالے سے کسی ایک آپشن پر اتفاق نہیں ہوسکا۔
بلکہ اپوزیشن کی اس بیٹھک سے یہی نتیجہ اخذ کیاجاسکتا ہے کہ دونوں جماعتیں حکومت پر صرف دباؤ برقراررکھناچاہتی ہیں جس کا مقصد سیاسی ریلیف کا حصول ہوسکتا ہے تاکہ نیب کے ذریعے انہیں مزید تنگ نہ کیاجائے اور نوازشریف کی واپسی پر بھی زیادہ زور دینے کی بجائے سیاسی ماحول کو سرد رکھاجائے۔ اپوزیشن کی یہ حکمت عملی کس قدر کار گر ثابت ہوگی یہ کہناقبل ازوقت ہوگا مگر مقتدر حلقے بھی ملک کے اندر فی الوقت ایسے سیاسی ماحول کے حق میں نہیں جو عدم استحکام کا باعث بنے جس کا پہلے بھی ذکر کیاجاچکا ہے کہ سیاسی جماعتیں سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے ماحول کو کشیدہ رکھنے کی بجائے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کریں۔
تاکہ ملک میں موجود معاشی بحران اور بیرونی چیلنجز کا ملکر مقابلہ کیاجاسکے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان بہترہم آہنگی ہواور کسی نہ کسی طرح سے حکومت واپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کیلئے درمیانی راستہ اپنائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اے پی سی میں اپوزیشن کیا فیصلہ کرے گی مگر اپوزیشن کے پاس اِ ن ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے سادہ اکثریت موجود نہیں اور وفاقی حکومت اس حوالے سے مضبوط ہے جبکہ ازسرنوانتخابات کے دورتک کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے مگر آئندہ چندہفتوں کے دوران ملکی سیاسی حالات کا نقشہ واضح ہوجائے گا کہ حکومت اوراپوزیشن مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہیں یا پھر کشیدگی کی طرف جاتے ہیں جس سے ملک میں ایک نیا ہنگامہ برپا ہونے کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔