ٍکے الیکٹرک نے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سے بقایاجات کی ادائیگی کا مطالبہ کردیا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے چیف سیکریٹری سندھ اورصوبائی حکومت کو باقاعدہ خطوط لکھ دیے گئے ہیں۔کے الیکٹرک کے ترجمان کا اس ضمن میں کہنا ہے بقایاجات کی عدم ادائیگی کی صورت میں کے الیکٹرک بجلی منقطع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ترجمان کا اس سلسلے میں مؤقف ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے 30 ارب روپے سے زائد کے واجبات ادا کرنے ہیں۔کے الیکٹرک ترجمان کاکہنا ہے کہ فروری 2020 کے بعد سے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ماہانہ بل کی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کی ہے۔ 18مئی 2016 کے عدالتی حکم نامے کے مطابق حکومت سندھ واٹر بورڈ کے ماہانہ بلوں کی ادائیگی کرنے کی پابند ہے۔
ترجمان کے الیکٹرک نے واضح طور پر کہا ہے کہ اس معاملے کو اگر فوری طور پرحل نہ کیا گیا تو کے الیکٹرک قانون کے مطابق کارروائی کا حق رکھتا ہے۔کے الیکٹرک اپنے واجبات کے لیے جس طرح متحرک دکھائی دیتی ہے مگر بجلی فراہمی کے حوالے سے اس کا ریکارڈ انتہائی خراب ہے اور یہ آج کا معاملہ نہیں ہے بلکہ عرصہ دراز سے کے الیکٹرک کراچی کی شہریوں کے ساتھ یہ نارروا سلوک برتتی آرہی ہے۔جہاں تک واٹراینڈسیوریج بورڈ پر واجبات کا معاملہ ہے تو یقینا اس ادارے سے رقم وصول کی جائے جو کہ عدالتی کے احکامات کے عین مطابق ہے۔
مگر عدالت کے دیگر احکامات پر بھی کے الیکٹرک اسی طرح پھرتی دکھاتے ہوئے عملدرآمد کرے، مگر نہیں۔ جس کی ایک واضح مثال 13اگست 2020کوہونے والی سماعت ہے جس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کے الیکٹرک کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیاتھا،سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کرنٹ لگنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آدھا کراچی بجلی سے محروم ہے تو آدھے شہر میں بجلی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ مرتے ہیں اور یہ جا کر ہائی کورٹ سے ضمانت کرا لیتے ہیں۔
لوگوں کی زندگی کا معاملہ ہے ہم ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑیں گے۔چیئرمین نیپراکااس دوران کہناتھا کہ کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی ہو تو یہ اسٹے لے لیتے ہیں۔ گیس، فیول اور بجلی کی پیداوار تک ان کے سارے معاملات خراب ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ان کی مناپلی ہے جس کا خمیازہ کراچی والے بھگت رہے ہیں۔چیف جسٹس کا اس دوران کہنا تھا کہ ان کو صرف پیسہ چاہیے، ان کا دل چاہتا ہے کراچی والوں کا پیسہ نچوڑیں۔ یہ ہے کے الیکٹرک کا اصل چہرہ جس کی تشریح بہتر انداز میں سپریم کورٹ نے کی تھی کہ اس ادارے کا بنیادی مقصد لوگوں کا خون چوسنا ہے۔
آج بھی کراچی میں بجلی کی فراہمی کا مسئلہ جوں کا توں ہے جب سے کے الیکٹرک نے انتظامات سنبھالے ہیں تب سے روشنیوں کا شہراندھیرے میں ڈوب چکا ہے، متعدد علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اس کے باوجود کہ عوام اپنے بل باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں مگر سفاک انتظامیہ اووربلنگ کے ذریعے عوام کو مزید ذہنی کوفت میں مبتلا کردیتی ہے، ایک تو بجلی فراہم نہیں کی جاتی دوسری جانب اووربلنگ اور میٹرکاٹ کر عوام کی زندگی اجیرن بناکر رکھ دیتی ہے لہٰذا کے الیکٹرک جس طرح سے اعلیٰ عدلیہ کی مثال دیتے ہوئے وصولی پر قانون کی پاسداری اور پابندی کی بات کرتی ہے۔
اسی طرح وہ بجلی کی فراہمی کا بھی پابند ہے جس سے وہ بری الذمہ نہیں لہٰذا کے الیکٹرک اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے عوام کو بجلی فراہم کرے بہرحال یہ لگتا نہیں کہ کے الیکٹرک اپنے رویوں میں تبدیلی لائے گی۔خدا کرے کہ حکومت اور عدلیہ اس کمپنی کی سمت ٹھیک کرنے کیلئے سخت فیصلے کریں، کم ازکم کراچی کے عوام کو درپیش بجلی کا مسئلہ تو حل ہوسکے چونکہ اب تک کے الیکٹرک کے رویے سے یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس کمپنی کا نام اور کام وصولی ہے مگر بجلی کی فراہمی کے حوالے سے اس کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔