ویسے تو اس سماج میں روزانہ ہر انسان خواہ وہ مرد ہو، عورت ہو یا کہ کوئی بھی جنس، مذہب، زبان، رنگ، نسل، ذات، فرقے اور طبقات کی وجہ سے مر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن عورتوں کو صنفِ نازک، بے بس، ڈرپوک جیسے القابات نواز کر انہیں ذہنی طور پر اتنا کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کئی جگہوں پر چاہ کر بھی اپنا دفاع نہیں کر سکتی۔ اس بے بسی کے احساس سے انہیں لگتا ہے کہ وہ واقعی کوئی دوسری مخلوق ہیں جن کو protect کرنے کے لیے خدا نے مرد ذات کو بنایا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ یہی مرد ذات اس کے لیے ایک وحشی کا روپ دھار لیتا ہے۔
پاکستان میں اب عورتوں پر تشدد کے موضوع کو چھیڑنا یا اس پر بات کرنا روزمرہ کی زندگی کا حصہ نظر آتا ہے۔ یہاں آئے دن عورتوں کے ساتھ جنسی ہراسانی، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنے کا عمل، گینگ ریپ، جیسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ اب تو سوشل میڈیا پر سائبر کرائم کے اتنے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر پھر یہ لوگ اپنی بھوک کیسے مٹائیں گے؟ اس بات کا اگر ایک مختصر سا تجزیہ کریں تو پچھلے کچھ دنوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں تشدد کے مختلف قسم کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
جن میں ڈاکٹر ماہا کا قتل، پانچ سال کے بچی کا ریپ اور جلانا، لاہور موٹر وے پر ایک ماں کی اس کے بچوں کے سامنے اجتماعی گینگ ریپ، تربت بلوچستان میں مشہور آرٹسٹ، صحافی اور ایکٹیوسٹ شاہینہ شاہین کا اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں قتل۔کہا جاتا ہے بلوچ تاریخ میں عورت آزاد ہوتی تھی، وہ بااختیار ہوتی تھی، اسے فیصلہ لینے کا حق حاصل ہوتا تھا جس کی مثال مہناز کی دی جاتی ہے۔ جب کہ کئی جگہوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں بھی عورت کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن وہاں بھی وہ عورتیں خاموش نہیں رہیں، انہوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی جس کی ہمارے پاس حانی اور گوہر جیسی عورتوں کی مثالیں موجود ہیں۔
یعنی بلوچ تاریخ آج اس دور کا الٹا عکس پیش کرتی ہے، کیونکہ آج کا بلوچ سماج ایک گلوبل دنیا کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اگر عورتوں کے حقوق پر بات کرنے کے عمل کو جرم قرار دیتا ہے تو وہاں کیسے تحریک یا نظریات کی بات کی جا سکتی ہے؟ آج کے اس سماج میں عورت محدود ہو کر رہ گئی ہے، اس کے نظریات اس کے ذہن کے کسی نہاں خانے میں محبوس ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے نظریات پر عملی طور پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں شاہینہ شاہین کی طرح اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔
شاہینہ شاہین جسے 5 ستمبر 2020 ء کو قتل کر کے قاتل نے خود ہسپتال تک پہنچایا، وہ شاہد بلوچ تاریخ کا ہی ایک عکس تھی۔ شاہینہ کو قتل کر کے لانے والے شخص کو بلا تفتیش ایمرجنسی میں موجود پولیس اور تفتیش کرنے والوں نے باآسانی جانے دیا۔ شاہینہ کی فیملی نے نہ صرف ایف آئی آر کٹوایا بلکہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے تحقیقات اور تفتیش کے ذریعے ملزم تک رسائی اور اس کے گرفتاری کی درخواست بھی کی۔ چونکہ قاتل اس علاقے کا ایک نواب زادہ ہے لہذا پولیس نے اپنی وضاحت دیتے ہوئے بھی اْسے تحویل میں لینے کی ہمت نہیں کی۔ وہ قاتل جسے پولیس، حکمران، علاقے کے لوگ اگر سب جانتے ہیں اور اس کے باوجود وہ آزاد گھوم رہا ہے تو یہ اس ریاست کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
شاہینہ اپنے فیملی کے تمام اخراجات شادی سے پہلے اور بعد میں خود ہی پورے کر رہی تھی۔ وہ نہ صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے بلکہ جانے کتنی ساری بچیوں کے لیے ہمت تھی۔ وہ کیسے اس بات پر اتفاق کر کے اپنی شادی دنیا سے چھپاتی، کیونکہ یہ کوئی جْرم یا گناہ کا عمل نہیں ہوتا، لہذا اپنے شوہرکی بات نہ ماننا اس کی زندگی چھین گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف یہی ایک وجہ ممکن ہے کسی کی جان لینے کے لیے؟ اور اگر آپ کسی کو اپنا نام نہیں دینا چاہتے یا دنیا کے سامنے اْسے اپنانا نہیں چاہتے تو طلاق دے کر فارغ بھی کر سکتے تھے، پھر آخر قتل کیوں؟
کچھ دنوں پہلے ایک دوست سوشل میڈیا پر سوال اٹھا رہے تھے کہ کیا باقی معاملات کی طرح شاہینہ کا کیس/معاملہ بھی کچھ دنوں بعد خاموشی کی نذر ہو جائے گا؟ میرے خیال سے انہوں نے بہت point valid اٹھایا ہے۔ دراصل ہمارے سماج میں آئے دن ایک نیا مسئلہ سامنے آتا ہے جس پر لوگ کسی نہ کسی صورت مل کر اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی پروٹیسٹ، بلاگ، آرٹیکل، سیشن، وی لاگ یا کسی اور صورت ہم سب اپنا غصہ نکالتے ہیں اور تب تک دوسرا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ اتنے سارے مسائل میں پرانا مسئلہ ان کے ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔
لیکن ایسا ہر گز نہیں ہوتا کہ وہ اسے بھلا دیتے ہیں کیونکہ وہ سارے مسئلے ان کے اپنے ہیں جن کے اب تک حل نہیں نکالے گئے ہیں۔ اورحل نہ نکلنے تک ویسے بھی اس قوم نے مزاحمت تو کرنی ہے۔ لہذا شاہینہ کا معاملہ بھی سب کو یاد رہے گا، اور ہمیں یاد رکھنا ہی پڑے گا۔یہ قتل ہم سب عورتوں کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے، کیونکہ یہ ایک خوف پھیلا چکا ہے ہمارے ارد گرد، ایک زخم دے گیا ہے ہمارے سینوں میں کہ اگر آج شاہینہ کو آگے بڑھنے پر، نام کمانے پر یا شاید عورت ہونے پر ہی سہی، مار کے خون میں لت پت کیا جا سکتا ہے تو کل کسی بھی عورت کو جو پڑھے گی، کام کرے گی، آگے بڑھے گی، اپنے قوم کا نام روشن کرنا چاہے گی، اپنے فیصلے خود لینا چاہے گی، اپنے اور دوسری عورتوں کے حقوق کی بات کرے گی، کیا اسی طرح قتل کر دی جائے گی؟ یہ ہم کو اب ہر گز منظور نہیں۔
یہاں تمام انسانی حقوق کے علمبردار، بلوچ سیاسی کارکنان، پارلیمنٹیرینز، سماجی کارکنان، بلوچ دانشور، اور ہر وہ عام و خاص انسان جواب دہ ہیں جو اب تک خود مطمئن نہیں ہیں کہ اصل میں عورت کے بھی وہی حقوق ہیں جو انسان کے ہیں کیوں کہ وہ بھی وہی ہے جو مرد خود ہے۔ عورت ذات ازل سے اس طرح کے جبری تشدد کا شکار رہی ہے، عام طور پر گھروں میں مار پیٹ تو روز کا معمول ہے، اس کے علاوہ کبھی سیاہ کاری، جنسی ہراسانی، گالی گلوچ اور جانے کیا کیا۔ لیکن عورت کی مضبوطی کا اندازہ اسی سے لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ہمیشہ سے آواز اٹھاتی رہی ہے۔ جس کی بہت ساری مثالیں ہمیں بلوچ تاریخ میں ملتی ہیں۔
شاہینہ سے میری کبھی ملاقات نہیں ہو سکی، اس کے پی ٹی وی کے پروگرام اور پینٹنگز میں نے بہت زیادہ دیکھے تھے۔جنوری 2020میں ہم کچھ ساتھیوں نے راجی بلوچ وومن فورم کے نام سے ایک فورم بنانے کا ارادہ کیا۔ ہم نے سوچا کہ ہم اپنی بلوچ بہنوں کو نہ صرف اْن کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کریں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ ان تک رسائی بھی حاصل کریں۔ اس سلسلے میں ہم نے اپنے میڈیا پیج کے لیے اپنی کچھ بلوچ خواتین آرٹسٹ کے پینٹنگز سلیکٹ کئے جن میں سیما سردار زئی اور شاہینہ شاہین کے بھی پینٹنگز تھے۔
اس سلسلے میں ہم نے ان سے رابطہ کیا اور شاہینہ کی سب سے مشہور پینٹنگ پیج کے cover mainپر لگایا۔ اتفاق سے انجانے میں ہی سہی (اس وقت ہمیں شاہینہ کے دذگہار تاک کے بارے میں معلوم نہیں تھا) دوستوں نے فورم کا پہلا نعرہ بھی “دذگہار” کے تصور کو لیتے ہوئے بنایا۔ پھر تو ہم پہ قرض بنتا ہے کہ ہم اس سوچ کو زندہ رکھیں جو شاہینہ کی تھی۔اس جنگ کو جاری رکھیں جو وہ اپنی بہنوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے لڑ رہی تھی۔شاہینہ کی سوچ جو اس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے وضاحت سے بیان کی تھی، اس سوچ کو ہم سب نے مل کر زندہ رکھنا ہے۔
ہم نے اپنی زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو آرٹسٹ بنانا ہے، لکھنے والی ہماری بلوچ بہنوں کو شاہینہ نے “دزگہار” کا تحفہ دیا تھا، جس کے اب تک صرف دو تاک نکلے تھے۔ یہ اس کی بہت بڑی محنت تھی کہ اس نے مختلف علاقوں سے بلوچ خواتین رائٹرز کو اکٹھا کیا اور انہیں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کے مطابق بلکہ بالخصوص عورتوں کے مسائل پر بلوچی زبان میں لکھنے کا موقع فراہم کیا، تاکہ عورتیں اپنے چاگرد کو سمجھ سکیں۔ یہ ایک خوش آئند بات تھی۔ یہاں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مرد لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن خواتین لکھنے والوں کو آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیئے جاتے۔
“دزگہار” اس سلسلے میں عورتوں کو اپنے زبان میں لکھنے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کر رہی تھی، جس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ہم یہ سب کیسے بھول سکتے ہیں کہ ہم بھی شاہینہ کی ہی پرچھائیں ہیں؟ ہمیں لڑنا ہو گا، ہمیں آگے بڑھنے ہو گا، ہمیں لکھنا ہو گا۔ ہمیں اپنی سوچ کو اور زیادہ مضبوط کرنا ہوگا۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ”شاہینہ کی سوچ زندہ ہے!”
گوار دذگہار ساتھ چلو،ہاتھوں میں لے کر ہاتھ چلو