پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ آئندہ قومی سلامتی سے متعلق اجلاس ہو یا کوئی بھی معاملہ ہو، ایسے کسی اجلاس میں پیپلز پارٹی شریک نہیں ہوگی جس میں شیخ رشید موجود ہوں۔بلاول نے کہا کہ قومی سلامتی سے متعلق یا کوئی بھی ان کیمرہ اجلاس ہو تو اس کی تفصیلات سامنے نہیں لائی جاتیں لیکن کچھ غیر ذمہ دار لوگ جن کا تعلق نہ قومی سلامتی سے، نہ گلگت بلتستان سے نہ آزاد کشمیر سے نہ ہی خارجہ پالیسی سے تھا، انہوں نے مجبور کردیا ہے کہ میں اس حوالے سے بات کروں۔بلاول نے کہا کہ جنہوں نے عسکری قیادت سے ہونے والی ملاقات میں ایک لفظ نہیں کہا وہ آج کل ہر ٹی وی چینل پر آکر بات کررہے ہیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر جو اجلاس بلایا گیا تھااس حوالے سے میڈیا پر ایسی باتیں کرنے سے معاملہ متنازع ہوجاتا ہے۔دوسری جانب مریم نواز نے گزشتہ روز میڈیا نمائندگان کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ جی ایچ کیو میں ہونے والے ڈنر کا علم نہیں اور نوازشریف کے کسی نمائندے نے آرمی چیف سے ملاقات نہیں کی۔مریم نواز کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کو اگر علیحدہ ہونا ہوتا تو آج وہ وزیراعظم ہوتے، انہوں نے وزارت عظمیٰ پر بھائی کو ترجیح دی، شہبازشریف بہت وفادار بھائی ہیں وہ کبھی علیحدہ نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہاکہ سننے میں آیا ہے کہ میٹنگ گلگت کے مسئلے پر بلایا گیا تھا لیکن یہ مسئلہ سیاسی ہے، یہ عوامی نمائندوں اور ان کے حل کرنے کا مسئلہ ہے، یہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں، جی ایچ کیو میں نہیں، ان مسئلوں پر نہ سیاسی قیادت کو بلانا چاہیے نہ سیاسی قیادت کو جانا چاہیے، جس نے آنا ہے وہ پارلیمنٹ آئے۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں عسکری قیادت اور پارلیمانی رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تھی مگر اس ملاقات کے حوالے سے کسی بھی اپوزیشن جماعت نے ذکر تک نہیں کیا تھا ہنگامہ اس وقت برپا ہوا جب وفاقی وزیر شیخ رشید نے اس ملاقات کے حوالے سے میڈیا پر آکر بات کی،شیخ رشید نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے جن رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
ان کا نام بھی لیا۔ شیخ رشید نے کہاتھاکہ آرمی چیف سے ملاقات کے دوران شرکاء میں سے ایک کو کہا گیا آپ نے الیکشن کی رات فون کیا۔شیخ رشید نے کہا کہ عسکری قیادت کو فون کرنے والے پارلیمنٹیرین کا نام خواجہ آصف ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس فون پر عسکری قیادت نے خواجہ آصف سے کہا کہ دھاندلی نہیں ہو گی اور پھر خواجہ آصف نشست جیت گئے۔عسکری قیادت کی پارلیمانی رہنماؤں سے ملاقات کے حوالے سے وزیرریلوے شیخ رشید کاکہنا تھا کہ شہباز شریف، بلاول بھٹو، سراج الحق سمیت عوامی نیشنل پارٹی(اے این پی) اور جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رہنما بھی شریک تھے۔
یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ اتنے بڑے اے پی سی کے دوران جو بڑے بڑے دعوے کئے گئے، اس سے چند روز قبل اس طرح کی ملاقاتیں یقینا سوالات پیدا کرتی ہیں خاص کر عوام کے اندر کیا پیغام جائے گا کہ جو اپوزیشن لیڈران باربار اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور سیاسی معاملات سے دور رہنے کے حوالے سے دبنگ انداز میں گفتگو کررہے ہیں وہ محض ایک فون پر حاضری کیلئے پیش ہوتے ہیں پھرتویہی تاثر پیدا ہوگا کہ مسئلہ صرف اس وقت اپوزیشن کو وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے ہے جبکہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کی کوئی ناراضگی نہیں ہے۔
بہرحال بلاول بھٹو زرداری جس طرح سیخ پادکھائی دے رہے ہیں ان کو یہ اندازہ ہے کہ اتنے بڑے اے پی سی کے بعد ایک بڑی خبر آرمی چیف سے ملاقات کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ اس سے اپوزیشن جماعتوں کی ساکھ پر براہ راست اثر پڑے گا اور ان کے احتجاجی تحریک کو عوام کی جانب سے سنجیدہ نہیں لیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری کا شیخ رشید کو ہدف بنانا سمجھ سے بالاتر ہے چونکہ یہ بات ہر ذی شعور شخص جانتا ہے کہ شیخ رشید ایسے معاملات پر کھل کر بات کرتے ہیں اور انہیں اے پی سی کے بعد ایک کھلا میدان کھیلنے کو ملا اور انہوں نے گویا صحیح وقت پر ایک ایسا پتہ کھیلا جس سے اپوزیشن کی بنیادیں کسی حد تک ہِل کر رہ گئی ہیں۔
جہاں تک مریم نواز کا یہ کہنا کہ نواز شریف کا کوئی نمائندہ شریک نہیں ہوا تھا تو چند روز قبل شاہدخاقان عباسی کا ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو دیکھ لیں جس میں وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ملاقات گلگت بلتستان پر ہوئی تھی اور شہباز شریف کی شرکت کی تردید بھی نہیں کی گئی تو کیا نوازشریف اور شہباز شریف کے درمیان چند ایک معاملات پر اختلاف موجود ہے۔بہرحال شیخ رشید نے اپوزیشن کو اے پی سی کے بعد احتجاج کی بجائے وضاحتی بیانات پر لگادیا ہے جوکہ اپوزیشن کیلئے ایک بڑے دھچکے سے کم نہیں کیونکہ اپوزیشن جماعتیں جتنی بھی وضاحتیں دیں مگر اس ملاقات کے انکشاف نے انہیں سیاسی دباؤکی طرف دھکیل دیا ہے۔