وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ زیادتی کیسز سے متعلق حکومت سرعام پھانسی کا قانون نہیں لا رہی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے زیادتی کے مجرم کی سرعام پھانسی کی مخالفت کردی ہے۔ وزیراعظم نے کہا سرعام پھانسی کا قانون نہیں بن سکتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالمی معاہدوں کے باعث اس طرح کا قانون کیسے بنا سکتے ہیں۔زیادتی کے کیسز کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ زیادتی کیسز سے متعلق سینٹر بنے گا جو عدالتوں میں مقدمات کی پیروی کرے گا۔زیادتی کے کیسز میں اب خاندان سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔
زیادتی کیسز کی تحقیقات کے لیے خواتین پولیس بھی ہوگی۔اس سے قبل وفاقی وزیرآبی وسائل اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ خواتین سے جنسی زیادتی کرنے والوں کی سرعام پھانسی کیلئے قانون لاؤں گا۔فیصل واوڈا نے کہا تھا کہ موٹروے پرخاتون سے زیادتی کا واقعہ افسوسناک ہے۔ نام نہاد لبرل سرعام پھانسی کے معاملے پرانسانی حقوق کو لے آتے ہیں۔ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قانون سازی ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ جن کیساتھ زیادتی ہوتی ہے کیا ان کے حقوق نہیں؟ وزیراعظم زیادتی کے واقعات پر بہت افسردہ ہیں۔
جن لوگوں نے بل میں سزائے موت کو مسترد کیا ان کو شرم آنی چاہیے۔ جن لوگوں نے زینب الرٹ بل میں سزائے موت کومسترد کیا، ان کوشرم آنی چاہیے۔گزشتہ ہفتے سینیٹ کے بیشتر اراکین نے جنسی زیادتی کے مرتکب مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا تھا۔اس سے قبل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہرمن اللہ نے تعلیمی اداروں میں بچوں پر جسمانی تشدد کے خلاف کیس میں ریمارکس دئیے تھے کہ سرعام پھانسی دینے سے معاشرہ ٹھیک نہیں ہوگا، انسانی رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند روز کے دوران ملک میں زیادتی کے کیسز زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ ایک معمولی صورتحال نہیں جسے عام واقعات کے طور پر لیاجائے بلکہ ایک ایسی لہر شروع ہوگئی ہے کہ خواتین، بچیاں، بچے جبکہ خاص کر والدین بہت زیادہ خوفزدہ ہوکر رہ گئے ہیں۔بہرحال یہ ہمارے معاشرے کی روایات کا کبھی حصہ نہیں رہا، ایک خوبصورت کلچر کے ساتھ یہاں پر بسنے والی اقوام صدیوں سے رہتے آرہے ہیں اور بہترین کلچر کے ذریعے ان کی تربیت ہوئی ہے بدقسمتی یہ کہ چند حیوان صفت درندوں کی وجہ سے ہمارے خوبصورت کلچر کو بدنما داغ لگ رہا ہے لہٰذا اس کے تدارک کیلئے غیر معمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک پھانسی کی سزا کا معاملہ ہے تو اس پر یقینا عالمی قوانین، انسانی حقوق کی تنظیمیں، سول سوسائٹی سمیت دیگر مکتبہ فکر کودیکھنا ہوگا مگر چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے یہ بات درست کہی ہے کہ رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس میں اہم کردار تعلیمی شعور کا ہے بدقسمتی سے اس پر خاص توجہ نہیں دی گئی اور ساتھ ہی معاشرے میں جنسی زیادتیوں کے خلاف مہم انتہائی ضروری ہے تاکہ لوگوں میں شعور آسکے۔ ویسے یہ واقعات دنیا کے دیگر ممالک میں بھی رونما ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ جب شام میں جنگی حالات پیدا ہوئے تو یورپی یونین نے ان متاثرین کیلئے اپنی سرحدیں کھول دیں تاکہ جنگ زدہ افراد کو پناہ دی جاسکے اور ان کے جان کا تحفظ یقینی ہوسکے،اس دوران جرمنی سمیت مختلف ممالک میں جنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے جن کا تعلق یورپی باشندوں سے نہیں تھا مگر پھر بھی انہیں گرفتار کرکے مزید پناہ گزینوں کیلئے قوانین سخت کردیئے گئے۔
ان کی نقل وحرکت پر کڑی نظر رکھی گئی اور اس طرح وہاں پر حالات کو کنٹرول رکھا گیا،البتہ ہمارے ہاں محدود وسائل اور جدیدٹیکنالوجی کے فقدان کی وجہ سے زیادہ تر کیسز کے ملزمان گرفت میں نہیں آتے تو لہٰذا شعوری بیداری پر کام کیاجائے جبکہ جنسی زیادتی واقعات کے ملزمان کے خلاف بروقت کارروائی کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا ہوگا تب جاکر کسی حد تک جنسی زیادتی کے واقعات کا تدارک ممکن ہوسکے گا۔