اقتدار کی رسہ کشی کی جنگ نے ملک کو ترقی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل دیا، کوئی بھی دور رہا ہو جمہوری یا غیر جمہوری، سب کو اپنے مفادات زیادہ عزیز رہے ہیں، گروہی مفادات کی بھینٹ پر قومی مفادات کوچڑھایا گیا،آج ملک کے کسی بھی صوبے کا جائزہ لیاجائے تو وہاں لوگوں کی طرز زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ مزید ان کے حالات خراب ہوئے اور یہ باتیں آج کھل کر سیاسی جماعتیں خود کہہ رہی ہیں کہ اقتدار کو بچانے کیلئے انہوں نے پارلیمان کی بالادستی تک کو داؤ پر لگادیا، نوازشریف نے جس طرح اپنی تقریر میں اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا کہ کس طرح سے وہ ایک اہم عہدے پر فائز رہتے ہوئے بھی بے بس تھے۔
مگر سیاسی اخلاقی جرات کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے مستعفی ہونے کافیصلہ کیا بلکہ کسی نہ کسی طرح سے مقتدر حلقوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کیلئے درمیان کا راستہ نکالنے کیلئے اپنے ہی اہم وزراء کو بھلی کا بکرا بناکر پیش کیامگر آج جس طرح سے وہ بات کررہے ہیں گویا انہوں نے ایک طویل انقلابی سفر طے کیا ہے، اس لئے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے کھل کر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ اگر اس سے آئی ایس آئی کا سربراہ استعفیٰ طلب کرتا تو وہ ان سے استعفیٰ لیتا چونکہ وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آئے ہیں۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاکہ وہ کسی صورت اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں نہیں آئینگے کیونکہ ان کا مقصد این آراو مانگنا ہے اگر نیب قوانین میں اپوزیشن کی منشاء ومرضی کے مطابق ترامیم کی جاتیں تو اپوزیشن جماعتیں اکٹھے ہوکر احتجاجی تحریک نہیں چلاتیں، ان سب کا اکٹھا ہونے کا مقصد اپنی جائیداد یں اور پیسے بچانا ہے مگر میں کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرونگا بلکہ ایک ایک کرکے سب کو جیل میں ڈال دونگا،اگر کسی نے بھی قانون کی خلاف ورزی کی تو ہم سخت ایکشن لینگے جبکہ نوازشریف کی وطن واپسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کیلئے بھی پلاننگ کررکھی ہے۔
اور ایسا کوئی قانون نہیں کہ برطانیہ نوازشریف کو حوالے نہ کرے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اس وقت اداروں پر تنقید بھارت کی ایماء پر کررہے ہیں کیونکہ امریکہ میں بھارتی لابی بہت زیادہ مضبوط ہے سب کچھ ان کو خوش کرنے کیلئے کیاجارہا ہے اور نوازشریف اپنے ذاتی مفادات کیلئے کسی بھی حد تک جائینگے اس لئے وہ براہ راست پاک فوج اور عدلیہ پر تنقید کرکے انہیں نہ صرف متنازعہ بنارہے ہیں بلکہ بدنام کرر ہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے وزراء اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے کیسز کمزور تھے۔
مگر پھر بھی وہ نیب کے سامنے پیش ہوئے جبکہ مشیر اطلاعات عاصم سلیم باجوہ کے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیر قانون فروغ نسیم کے سامنے تمام دستاویزات کا ہم نے جائزہ لیا اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ جس میں کرپشن نظرآئے،اگر کوئی اور مواد اور سوال سامنے آئے گا تو ہم ضرور کیس کا جائزہ لینگے مگر احتسابی عمل میں خیانت نہیں کرینگے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماء رانا ثناء اللہ کا اس تمام صورتحال پر کہنا تھا کہ نوازشریف پاک فوج سمیت قومی اداروں کا احترام کرتے ہیں انہوں نے تین بار اپنے خطاب کے دوران پاک فوج کے جوانوں کو سیلوٹ بھی کیا،وہ فوج کے خلاف نہیں بلکہ چند شخصیات کے متعلق انہوں نے بات کی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اب بھی کسی طرح سے مسئلہ کا حل افہام وتفہیم سے چاہتی ہے۔ بہرحال سیاسی صورتحال سامنے ہے اور یہ نقشہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ ملک میں سیاسی حالات میں گرماگرمی رہے گی مگر عوامی مفادات کا تحفظ کون کرے گا یہ سوال ستر سال سے موجود ہے جو حل طلب ہے۔