کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے کوئٹہ جلسے کی تاریخ 11 اکتوبر سے 18اکتوبر اورپھر 25 اکتوبر تک بڑھانے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ بلوچستان کے عوام احتجاج اورانتشارکیلئے تیار نہیں۔شہباز شریف الطاف حسین کی طرح اپنے بھائی کے بیانات کی مذمت کریں۔شہباز شریف آج وہ موقف کیوں نہیں اپنا رہے۔
جو اس وقت بانی متحدہ کے خلاف اپناتے تھے،گرکوئٹہ کے جلسے کے بعد کورونا وائرس کے کیسز بڑھے تو اسکی ذمہ داری اپوزیشن جماعتوں پر عائد ہو گی۔مسائل کے حوالے سے ان جماعتوں کو بلوچستان یاد آ جاتاہے آخر کوئٹہ کے عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ حکومت مخالف تحریک کاآغاز کیونکہ سند ھ،پنجاب،گلگت بلستان،خیبرپشتونخواہ یا اسلام آبا د سے نہیں کیاجارہاہے اداروں کو ٹارگٹ کرنا اپنی کمزوری پیش کرنا ہوتاہے۔پاکستان کا دشمن ہمیشہ کمزوریوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ہمیں اپنے دشمنوں کو موقع نہیں دینا چاہئے۔
ان خیالات کااظہارانہوں نے پیرکو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر بلوچستان عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹرمنظورخان کاکڑ،صوبائی وزیرمیرضیاء اللہ لانگو،عارف جان محمد حسنی،محمدخان لہڑی،سردار سرفراز بگٹی،بشریٰ رند،اراکین بلوچستان اسمبلی میرجان محمد خان جمالی،لالا رشید بلوچ،سینیٹرنصیب اللہ بازئی،اورپارٹی رہنماء طاہرمحمودخان،ملک خدابخش لانگو،حاجی ولی محمد نورزئی سمیت دیگربھی موجودتھے۔وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاکہ اگراپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کو بلوچستان سے اتنی محبت تھی۔
تو سیلاب، خشک سالی اور برفباری کے دنوں میں آتے،کورونا وائرس میں تو یہ سیاسی رہنما ملک سے باہر چلے گئے تھے،اب آج جب ماسک اترنا شروع ہوئے ہیں تو ا ن کو بلوچستان یاد آگیا ہے۔کورونا کے سبب نہ صرف جلسے کے شرکا بلکہ کوئٹہ اور پورے صوبے کے لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔پچیس تاریخ کے بعد کورونا کی شرح میں اضافہ ہوا تو ذمہ دار جلسے کے منتظمین ہوں گے۔
جام کمال خان نے کہاکہ آنے والے سال میں وفاقی حکومت کے ساتھ ملکر بجٹ سے ہٹ کر صوبے کے لیے ایک بہت بڑا پیکج شروع کیا جارہا ہے، آج کا بلوچستانی اس پارٹی کے ساتھ چلے گا جو اسکو بنیادی سہولیات سمیت اسکی طرز زندگی میں بہتری لائے گا،اگر ان جماعتوں نے یہاں کی ترقی میں کردار ادا کیا ہوتا توآج ضرور یہاں سے اپنی سیاست کا آغاز کرتے۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان عوامی پارٹی نے دو سالوں صوبے کے حقوق کے لئے کام کیا۔،کوئٹہ کے امن کے لئے سیکورٹی فورسز عوام وکلاء اساتذہ سمیت تمام طبقات کے لوگوں نے قربانیاں دی ہے۔
جس کے وجہ سے آج بلوچستان میں امن اور ترقی کا دوردورہ ہے مگراب ایک بار پھر قوم پرست اور مذہبی جماعتیں،بلوچستان کے حالات خراب کرنے کے لئے اکٹھے ہورہے ہیں چونکہ کہ بلوچستان حکومت میں شامل جماعتیں صوبے کی ترقی کے لئے بلا تفریق کام کر رہی ہیں اس لیے کوئٹہ جلسے کی ڈیڈ لائن میں توسیع اپوزیشن کی ناکامی کی غمازی کرتا ہے ہم بلوچستان کا پر امن ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے عوام ورغلانے والوں کو جانتے ہیں کیونکہ ماضی میں یہاں کے لوگوں کے دین زبان مذہب اور علاقائی بنیادوں پر بہت لڑوا لیا گیا وفاق اور صوبائی حکومتیں مستقبل میں بلوچستان کے لئے بڑے کام کرنے جا رہے ہیں۔کمزوری انسانوں میں ہوتی ہے اداروں میں نہیں ہوتی۔وزیراعلیٰ جام کمال خان نے سوال اٹھایاکہ 2008 سے 2018 تک ملک میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کی حکومتیں رہی ہے تو اس وقت وہ ایکسپورٹ کو 50 ارب پرکیونکہ نہیں لے گئے۔گوادر پورٹ کو فنگشنل کیوں نہیں کیا۔
اورگوادر گریڈ کو نیشنل گریڈ سے منسلک کرنے کے ساتھ کوئٹہ چمن شاہراہ اور،ژوب کوئٹہ سٹرک کو دورویہ نہیں بنایاہم آج کوئٹہ میں کینسر ہسپتال بنانے کے ساتھ نواں کلی میں ہسپتال اور پاک فوج کے ساتھ ملکر کوئٹہ میں نسٹ یونیورسٹی کیمپس بنارہے ہیں۔وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہاکہ خضدار،پشین سے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین اسمبلی نہ ہونے کے باوجود ان حلقوں میں کروڑروپے کے ترقیاتی منصوبوں پرکام ہورہاہے کیونکہ ہم تنگ نظری اورتعصب کی سیاسی پریقین نہیں رکھتے ہیں اوراب سیاسی مقاصد کیلئے یہاں کے عوام استعمال کرنے وقت گزار گیا۔
بلوچستان اب کمزورنہیں بلکہ بدلتاہوامضبوط بلوچستان ہے اوربلوچستان عوا می پارٹی اپنی اتحاد جماعتوں سے ملکرآنے والے دونو ں میں اپنی کارکردگی مزید بہتربنائیں گی۔ا نہوں نے کہاکہ سیاسی مقاصد کیلئے یہاں کے عوام استعمال کرنے وقت گزار گیا۔کوئٹہ شہر میں جو ترقیاتی منصوبے چل رہے ہیں وہ گزشتہ 20 سال میں بھی نہیں ہوئے ہیں۔جام کمال خان نے کہاکہ آج صوبے کا ہرعلاقہ پرامن اور ترقی یافتہ ہونے جارہا ہے۔
بلوچستان میں امن و امان بحال کرنے کے لئے جانیں دی گئی ہیں۔سیکورٹی فورسز سیاسی کارکنان اور عوام نے بیش بہا قربانیاں دیں،لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم نے بلوچستان میں امن بحال کیا تو ان نے اپنی حکومتوں میں صوبے کے 10 دورے بھی نہیں کئے۔وزیراعلی بلوچستان نے کہاہے کہ اپوزیشن کے جلسے کی تاریخ بڑھانے کی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے عوام اس کے لئے تیار نہیں۔اگر عوامی طاقت آپ کے پاس ہے تو اپکو پہلے دن ہی جلسہ کرنا چاہیئے تھا،چونکہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہیں ہر کسی کو اپنی بات کرنے کا حق ہے مگر اس کا پلیٹ فارم ایوان ہونا چاہیئے سٹرک وشاہراہ نہیں۔