|

وقتِ اشاعت :   October 7 – 2020

کراچی:ترجمان سندھ حکومت اور مشیر قانون و ماحولیات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کہا ہے کہ وفاق نے ساحلی علاقوں کے جزائر پر آرڈیننس جاری کرکے سندھ و بلوچستان کے آئینی حقوق پر شب خون مارا ہے جس کی ہم پرزور انداز میں مذمت کرتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آج سندھ اسمبلی کے کمیٹی روم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ صوبائی وزیر اطلاعات و بلدیات سید ناصر حسین شاہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان سب سے مقدم ہے۔ آئین کے آرٹیکل 172 کے تحت ساحلوں سے ملحق زمین صوبے کی ملکیت ہے۔ آئی لینڈ صوبائی ملکیت ہیں وفاقی حکومت کی ملکیت نہیں۔ یہ آرڈیننس جاری کر کے وفاق نے اپنے اختیارات سیتجاوز کیا ہے۔ جو زمین وفاق کی ملکیت نہیں اس پر آرڈیننس جاری کیاگیا۔سندھ و بلوچستان کے آئی لینڈز صوبائی ملکیت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کیزریعے یہ تاثر دیاگیاہے وہ شیڈول تبدیل کرسکتے ہیں۔ سندھ کابینہ نے صدارتی آرڈیننس کو مسترد کیا۔ آئی لینڈز سے متعلق صدارتی آرڈیننس سندھ کے حقوق پر قبضہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر آرڈیننس کو واپس لے۔ وفاقی حکومت کو پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ آئی لینڈ سندھ کے عوام کی ملکیت ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دو ستمبر کو سندھ و بلوچستان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا اور یہ بدنیتی ہے کہ دوستمبر کو جاری آرڈیننس اکتوبر میں ظاہر کیاگیا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کابینہ نے آئین پاکستان کی روشنی میں فیصلہ کیاہے کہ سمندری علاقوں کے جزائر سندھ حکومت اور عوام کی ملکیت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کا آئی لینڈ آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ آئینی اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ سندھ حکومت کا آئندہ آئی لینڈ پر وفاقی حکومت سے کسی قسم کی بات نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اب سندھ کابینہ نے پہلے وفاق کو لکھا گیا خط واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے اور اب سندھ حکومت آئندہ وفاقی حکومت سے آئی لینڈ سیمتعلق کوئی بات نہیں ہوگی۔ سندھ حکومت نے آئی لینڈ کی ملکیت سے کبھی دستبرداری نہیں کی۔ آئی لینڈ اتھارٹی کا قیام غیر آئینی غیر قانونی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومت کے آئینی معاملات میں گورنر سندھ کا کوئی کردار نہیں ہے۔سندھ حکومت آئینی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اقدامات کریگی۔ گورنر صاحب کو شاید صورتحال کا علم نہیں ہے۔ آئی لینڈ کا استعمال قانون کیمطابق ہوگا یہ وفاق کو پہلے ہی آگاہ کرچکے ہیں۔ وفاقی حکومت نے آرڈیننس جاری کرکے خلاف ورزی کی ہے۔ سندھ حکومت نے آئی لینڈ کی تعمیر وترقی سیمتعلق وفاق کو شرائط بتائیں تھیں جس پر وفاق نے اپنے اختیارات سیتجاوز کیا ہے۔

جو زمین وفاق کی ملکیت نہیں اس پر آرڈیننس جاری کیا گیا۔ سندھ کابینہ نے سمندری جزائر پر صدارتی آرڈیننس کو متفقہ طور پر مسترد کردیا ہے جس کے تحت پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آرڈیننس کوفوری واپس لے۔ سندھ کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں صوبائی وزراء، مشیران، چیف سیکرٹری ممتاز شاہ اور متعلقہ سکریٹریز نے شرکت کی۔ وزیر توانائی امتیاز شیخ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ اجلاس میں کابینہ کو 31 اگست 2020 کو صدر پاکستان کے ذریعہ پیش کردہ آرڈیننس کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ کابینہ کے ارکان نے آرڈیننس سے متعلق اپنی مشاورت میں کہا کہ ساحلی اتھارٹی سے متعلق آرڈیننس پاکستان کے آئین کے منافی ہے۔ کابینہ اراکین کا کہنا تھا کہ آئین کے تحت صوبائی حکومت کے علاقائی دائرہ اختیار میں واقع زمینوں، جزائر اور سمندری زمین صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔ کابینہ نے کہا کہ اس آرڈیننس کو اس طرح نافذ کیا گیا ہے جیسے یہ جزائر وفاقی حکومت کی ملکیت ہوں۔

کابینہ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ترقی کیلئے کچھ پیرامیٹرز رکھے ہیں جن میں جزیرے شامل ہیں وہ صوبائی حکومت کی ملکیت رہیں گے، ترقیاتی منصوبوں کی شرائط و ضوابط کو صوبائی حکومت اور مقامی آبادی کے مفاد کے حق میں تقسیم کیا جائے گا جسکی حفاظت کی جائے گی۔ کابینہ نے کہا کہ اس معاہدے نے سندھ حکومت کی طرف سے طے کی گئی شرائط کو ایک طرف رکھتے ہوئے سندھ اور بلوچستان کے علاقائی دائرہ اختیار میں واقع جزیروں کو وفاقی حکومت کی ملکیت قرار دیا ہے۔ صوبائی کابینہ نے کہا کہ اس آرڈیننس کے ذریعے سندھ کے عوام کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔ کابینہ نے اس آرڈیننس کو واپس لینے کے اصرار کے ساتھ وفاقی حکومت کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں صوبائی حکومت اور اس کے عوام کے حقوق کی نفی کی گئی ہے خط میں انہیں آئینی موقف کے ساتھ اجاگرکیا جائے گا۔