|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2020

گوادر: پاک ایران بارڈر کے قریب کنٹانی کے مقام پر تیل کے کاروبار کی بندش کے خلاف سینکڑوں افراد کا ڈی سی آفیس کے باہر احتجاج و دہرنا۔ جنوری سے اگست 2020 تک کوڈ 19 نے ہمارے روزگار پر قاری ضرب لگایا اور جب کْرونا قدرِ کم ہوگیا ہے اب مختلف حیلے بہانے بناکر ایک سیکورٹی ادارے نے عوام اور کاروباری لوگوں کے روزی روٹی پر قدغن لگا کر نانِ شبینہ کے محتاج بنانے کے درپے ہے۔ اس کاروبار سے منسلک لوگوں کی ایک ہجوم نے ڈپٹی کمشنر گوادر کے دفتر کا رخ کیا اور اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کروانے کیلئے ڈی سی آفیس کے گیٹ پر دھرنا دیا۔

بعد ازاں آخری اطلاعات آنے تک اسسٹنٹ کمشنر گوادر نے ان احتجاجی لوگوں کے چند سرکردہ رہنماؤں کو مزاکرات کیلئے دفتر میں طلب کیا۔ایک اندازے کے مطابق گوادر کے حدود میں اسوقت 5100 لوگ کنٹانی بارڈر میں تیل کے کاروبار سے منسلک ہیں، اور اگر ان 5100 افراد میں سے ہر فرد کے خاندان کے کم از کم چھ لوگوں کو بھی شامل کیاجائے تو یہ تعداد 30600 لوگوں پر مشتعمل ہوجاتی ہے۔ یعنی 30000 سے ذائد لوگوں کا رزق اسی بارڈر کے کاروبار سے وابستہ ہے جوکہ اسوقت بند ہے۔ جس کی وجہ سے ان تیس ہزار سے ذائد آبادی کو اپنے روزگار کا بہت ذیادہ فکر لاحق ہوگیا ہے۔

واضح رہے کہ مکران وہ علاقہ ہے جہان پر روزگار کے اور کوئی زرائع نہیں ہیں، ملز، فیکٹریاں یا کمپنیاں یہاں موجود نہیں جس سے ان لوگوں کیلئیروزگار کے مواقع پیدا ہوجاتے، زمینداری کیلئے ضلع گوادر میں زیر زمین میٹھا پانی نہیں۔ اور اگر حکومت ان تیس ہزار لوگوں کے اس با عزت اور پرامن روزگار پر قدغن لگاتی ہے تو پھر یہ متاثرین ایک آدھ مہینے کے بعد بے روزگاری سے تنگ آکر جرائم کی دنیا میں کھود پڑسکتے ہیں۔

اگر حکومت نے انجانے اور نادانستہ طور پر بندش کا فیصلہ کیا ہے تو پھر حکومت کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑے گا کیونکہ اگر اپنا باعزت کاروبار اور مزدوری چھن جانے پر یہ لوگ جرائم کے راہ پر چل پڑے تو پھر حکومت کیلئے ان کا روکنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا اور علاقے کی امن بھی داؤ پر لگ جائے گا۔ لہٰذہ دانشمندی کا تقاضا یہی ہے کہ بارڈر کے کاروبار کو حسب ثابق بحال کیا جائے۔