|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2020

وفاقی کابینہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف بغاوت کے مقدمے کے معاملے پر تقسیم ہوگئی۔اطلاعات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نوازشریف سمیت ن لیگی اراکین کے خلاف ایف آئی آر کا معاملہ زیر بحث آیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ غداری کی ایف آئی آر سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں، حکومت سیاسی انتقام کے حق میں نہیں۔اطلاعات کے مطابق تین اراکین نے ایف آئی آر کو منطقی انجام تک پہنچانے کا مشورہ دیا، ان افراد میں دو وفاقی وزراء اور ایک معاون خصوصی شامل ہیں جنہوں نے ایف آئی آر کی حمایت کی۔

وزیراعظم سمیت دیگر وزراء نوازشریف کے خلاف ایف آئی آر کے مخالف ہیں اور وزراء کی رائے ہے کہ غداری سے متعلق ایف آئی آر ختم ہونی چاہیے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف سمیت مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف بغاوت کا مقدمہ لاہور میں درج کیا گیا۔مقدمہ ایک شہری بدر رشید کی جانب سے تھانہ شاہدرہ میں پاکستان پینل کوڈ کی مجرمانہ سازش کی دفعات کے تحت درج کرایا گیا جس میں 40 سے زائد لیگی رہنماؤں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔مقدمے میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق،احسن اقبال، پرویز رشید، راجہ ظفر الحق، رانا ثنا اللہ، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ صلاح الدین ترمذی اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ سمیت ن لیگ کے 40 رہنماء نامزد کیے گئے ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جو غدار اور انڈین ایجنٹ کہہ رہے تھے وہ سارے غائب ہیں، کہا گیا کہ مقدمہ درج ہونے کا وزیراعظم کوپتہ ہی نہیں تھا، وہ ناراض ہوئے ہیں پرچہ کٹنے پر، وزیراعظم کو تو کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ پہلے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹتے رہے، اب کہہ رہے ہیں کہ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے، پوچھنا چاہتا ہوں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ کہاں سے ملتا ہے تاکہ میں بھی اپلائی کروں، وزیراعظم رہنے کے بعد میں بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ دے دیں۔

ان کا کہنا تھا غداری کا لیبل تو آپ نے لگا دیا ہے لیکن کوئی وزیر عوام کی تکلیف یا مشکل کی بات نہیں کرتا، میرا چیلنج ہے کہ غداری کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلائیں، پاکستان کے عوام کو دکھائیں کون سے غدار ہیں۔بہرحال جس شخص نے ایف آئی آر درج کرایا ہے وہ خود مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہے، اس ایف آئی آر کے درج ہونے کے بعد ایک غلط تاثر گیا ہے کہ اس شخص نے کس کے کہنے پر ایف آئی آر درج کرایااور اہم سیاسی شخصیات کے محب وطن ہونے پر سوالات اٹھائے ہیں بدقسمتی سے ملک میں ستر سالوں کے دوران یہ سیاسی روش دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک دوسرے کو غداری کا سرٹیفکیٹ دیتے رہے ہیں۔

جوکہ سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں،جمہوری وغیر جمہوری ادوار میں یہ سلسلہ حکمرانوں کی جانب سے چلتا آرہا ہے اب یہ حالت ہے کہ ایک ایسا شہری جس کے پاس اخلاقی جواز تک نہیں کہ وہ کسی پر مقدمہ درج کرائے اور غداری کے الزامات لگائے،یہ ملک کے دہائیوں کی سیاسی اخلاقی اقدار کا نتیجہ ہے اگر ماضی میں اس روش کو تقویت نہیں دی جاتی اور اس روایت کو آگے نہ بڑھایاجاتا تو آج اس طرح کا ماحول نہ بنتا، البتہ حکومت میں شامل تمام وزراء اب تک جو میڈیا کے سامنے کھل کر اس بات کااظہار کررہے ہیں کہ اس مقدمہ سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی وہ اس عمل کی حمایت کرتے ہیں۔

بلکہ شدید مذمت دیکھنے کو مل رہا ہے مگر اس حوالے سے حکومتی سطح پر اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں کہ کس طرح سے پولیس تھانہ میں موجود کوئی بھی ڈیوٹی آفیسر کسی بھی شخص کی شکایت پر غداری جیسے سنگین مقدمات درج کرسکتا ہے وہ بھی ایک ایسے شخص کی درخواست پر جس پر خود اخلاقی حوالے سے سوالات موجود ہیں۔اس روش کو یہی روک دینا چاہئے اور ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے غداری کے سرٹیفکیٹ دینے کے اس عمل کو روکا جائے، سیاسی جنگ کو سیاسی اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے لڑا جائے تاکہ دنیا بھر میں ہماری سبکی نہ ہو۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جنہیں غدار قراردیا گیا۔

وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا ملک اس وقت انتہائی مشکل حالات سے گزررہا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے بجائے کہ ایسے ایشوز کو اٹھایا جائے جوکہ نقصان کا سبب بنیں۔ امید ہے کہ حکومت اوراپوزیشن اس معاملے پر تناؤ کو کم کرتے ہوئے سیاسی،جمہوری واخلاقی طریقے سے آگے بڑھیں گے اور یہ فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے کہ وہ کس کے ساتھ ہے۔