|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2020

امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک مِلے نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کا انخلا ء اب بھی مشروط ہے۔جنرل مارک ملے کا کہنا تھا کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کے انخلا ء کا انحصار تشدد میں کمی اور فروری میں طالبان کے ساتھ طے پایاجانے والے دیگر شرائط پر ہوگا۔جنرل مارک ملے نے کہا کہ ہم سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ جنگ ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جنگ ان شرائط کے ساتھ ختم کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان میں داؤ پر لگے ہوئے۔

امریکا کے اہم قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کی ضمانت دیں۔واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکہ نے افغانستان سے مزید افواج کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔امریکہ کے مشیر قومی سلامتی رابرٹ براؤن نے اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں آئندہ سال تک امریکی فوجیوں کی تعداد کم کر کے 2 ہزار 500 کر دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلے سال دسمبر تک 4 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے جنہیں بدستور کم کیا جائے گا۔یہ بات واضح رہے کہ افغانستان میں عدم استحکام کی بڑی وجہ عالمی سپر پاور ممالک ہیں جو اپنے مفادات کے تحت اس خطے میں پنجہ گاڑنے کیلئے آئے تھے گویا وہ سوویت یونین کا دور ہو یا پھر سرد جنگ خاتمے کے بعد بدلتی عالمی طاقتوں کی پالیسیوں کی وہ چپقلش جس پر انہوں نے یہ تمام تر صورتحال کو مختلف انداز سے ڈیزائن کیا تھا یقینا اب بھی وہ اپنے قومی مفادات کے تحت ہی مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرینگے۔

جس کیلئے وہ افغانستان کی موجودہ قیادت کے پابند بھی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی طالبان کے کسی گروپ کی یقین دہانی پر اپنے فیصلے کرینگے جس کی واضح مثال جنرل مارک ملے کا حالیہ بیان ہے۔ اگر اس مختصر سے بیان کاجائزہ لیاجائے تو امریکی حکام اب بھی خاص مطمئن دکھائی نہیں دے رہے اور ان کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی مکمل طور پر بیک فٹ پر چلے گئے تو افغانستان میں موجود گروپس ان کے مفادات کو نقصان پہنچاسکتے ہیں اور یہ صورتحال خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی وجہ سے بنی ہوئی ہے۔

افغانستان میں دہشت گردی کی نہ رکنے والے واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بعض گروپس جو خودافغانستان میں موجود ہیں وہ کسی بھی وقت اپنا اثر ورسوخ بڑھاتے ہوئے طالبان خاص کر ملابرادران کے مدِ مقابل آسکتے ہیں کیونکہ نائن الیون کے بعدطالبان اور القاعدہ کے نیٹ ورک کو کسی حد تک تھوڑ دیا گیا ہے مگر اس آپریشن کے نتیجے میں چھوٹے چھوٹے گروپس الگ الگ طریقے سے افغانستان میں کارروائیاں کررہے ہیں جو طالبان کے بھی کنٹرول میں نہیں ہیں۔


اگرکہاجائے کہ بعض گروپس افغانستان میں عدم استحکام پھیلانے کیلئے چند ممالک کیلئے پراکسی کا حصہ بھی ہیں جو نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں امن نہیں چاہتے۔ اس جانب اشارہ دیاجاچکا ہے کہ نائن الیون کے بعد بھارت کا اثر ونفوذ سب سے زیادہ افغانستان میں بڑھ چکا تھا اور اب اگر مذاکرات طالبان کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار ہونگے تو بھارت کیلئے یہ قابل قبول نہیں ہوگا۔

اس لئے وہ چند ایک گروپس کو اپنے مفادات کیلئے وہاں استعمال کرے گا اور اسی طرح امریکہ امن کی تو خواہش رکھتا ہے مگر وہ اپنے شرائط و مفادات کو فوقیت دے گا۔بہرحال کوئی بھی ملک اپنے قومی سلامتی پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں اس لئے ضروری ہے کہ افغانستان کے حقیقی نمائندگان اور اسٹیک ہورلڈرز کے ساتھ بات چیت کے عمل اور مستقبل کے لائحہ عمل کو طے کیا جائے تاکہ پھر جنگی ماحول جیسی صوررتحال پیدا نہ ہو جس کا نقصان صرف خطے کو نہیں بلکہ عالمی برادری کو بھی ہوگا۔