ڈیرہ اللہ یار: ڈیرہ اللہ یار چھالیہ کا گڑھ بن گیا کراچی اور اندرون سندھ اسمگلنگ جاری پولیس ایکسائز کی چشم پوشی بڑے بڑے نام ایرانی تیل کے بعد چھالیہ اسمگلنگ کے کاروبار میں ملوث ہیں رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اللہ یار میں رائس ملز اور لائن کے ہوٹلوں کی دکانیں چھالیہ کے گوداموں میں تبدیل ہوگئے افغان سرحدی شہروں سے روزانہ کروڑوں روپے کا چھالیہ مسافر کوچز ودیگر ٹرانسپورٹ کے ذریعے ڈیرہ اللہ یار پہنچا کر گوداموں میں ذخیرہ کیا جاتا ہے۔
جسکے بعد ٹرکوں کوچز بسوں اور دیگر گاڑیوں کے ذریعے کراچی اور اندرون سندھ اسمگل کیا جاتا ہے ڈیرہ اللہ یار سمیت کوئٹہ ڈیرہ مراد جمالی اور جیکب آباد کی بڑی شخصیات بھی ایرانی پیٹرول کے بعد اب چھالیہ اسمگلنگ کے کاروبار سے جڑ گئے ہیں چھالیہ کی اسمگلنگ سے روزانہ کروڑوں روپے کا لین دین کیا جارہا ہے جبکہ پولیس اور ایکسائز کو بھی چشم پوشی کے لیے ماہانہ لاکھوں روپے منتھلی دی جاتی ہے۔
پولیس اور ایکسائز پیسوں کی چمک پر آنکھیں بند کر چکی ہیں چھالیہ اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث افراد چھالیہ سے بھری بوریوں کے اندر چرس اور دیگر منشیات بھی خفیہ طور پر اسمگلنگ کرتے ہیں پولیس اور ایکسائز کے بالا افسران کے نوٹس پر مقامی افسران خانہ پوری کے لیے گدھا ریڑھوں پر ایک جگہ سے دوسری جگہ چھالیہ منتقلی کے دوران چند بوریاں پکڑ کر مقدمہ بنا دیتے ہیں۔
بعد ازاں مبینہ لین دین کے بعد اسمگلرز کو کلین چٹ دیکر روٹ بھی صاف کرکے دیتے ہیں ڈیرہ اللہ یار میں پولیس اور ایکسائز کے افسران چند ماہ کے دوران ہی چھالیہ اسمگلنگ سے ملنے والی منتھلی سے کروڑ پتی بن گئے ہیں۔