بلوچستان میں پولیو وائرس کے 2 نئے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد رواں سال بلوچستان میں پولیو کیسز کی تعداد 23ہوگئی ہے، حالیہ رپورٹ ہونے والاایک کیس کوئٹہ کے علاقے چلتن ٹاؤن میں چار سال کے بچے میں ہواہے جبکہ دوسرا کیس پشین کی تحصیل برشور میں 15ماہ کے بچے میں ہوئی ہے۔ بلوچستان میں پولیوکے حالیہ بڑھتے ہوئے کیسز تشویشناک ہیں اس کی ایک بڑی وجہ والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو پولیو ویکیسیئن نہ پلانا ہے حالانکہ پولیو مہم چلانے کے حوالے سے کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی بلوچستان کے تمام اضلاع میں شیڈول کے مطابق حکام کی جانب سے پولیو مہم کا آغاز کیاجاتا ہے۔
تاکہ بچوں کو مستقل معذوری سے بچاتے ہوئے انہیں محفوظ بنایا جاسکے.بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر والدین کا پولیو قطرے پلانے سے انکار کی وجہ منفی پروپیگنڈہ ہے جو ان کے ذہنوں میں ڈالا جاتا ہے کہ اس ویکسیئن سے نقصان ہوتا ہے جوکہ سراسر غلط ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک سے پولیو جیسے موذی مرض کا خاتمہ ہوچکا ہے اس خطے میں صرف دو ہی ممالک پاکستان اور افغانستان ہیں جہاں پولیو وائرس موجود ہے اگر ویکسیئن سے نقصانات کا سامنا کرناپڑتا تو دنیا کے دیگرممالک میں یہ ویکسیئن استعمال نہ کی جاتی مگر ہمارے ہاں عموماََ چند عناصرمنفی پروپیگنڈے کے ذریعے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کیلئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔
اور عوام ایسے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اپنے بچوں کو مستقل معذوری کی طرف لے جاتے ہیں جو اپنے ہی بچوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو پولیو کا خاتمہ یہاں سے ممکن نہیں ہوسکے گا خاص کر بلوچستان تو حساس ترین علاقوں میں شمار ہوتا ہے جہاں ہر سال پولیو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں،باوجود تمام تر خطروں کے پولیو ورکرز دور دراز علاقوں میں گھرگھر جاکرپولیو کے قطرے پلاتے ہیں مگر شکایات یہی سامنے آتی ہیں کہ والدین انکار کرتے ہیں تو دوسری جانب دہشت گردوں کی جانب سے پولیو ہیلتھ ورکرز پر جانی حملہ کیا جاتا ہے۔
ایسے ہی حملوں میں خواتین ورکرز سمیت دیگر شہید بھی ہوچکے ہیں مگر اس کے باوجود بھی ایک عزم کے ساتھ پولیو مہم کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے جان کی پرواہ کئے بغیر پولیوٹیمیں اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ سب سے بڑی بات جو افراد پولیو کا شکار ہوئے ہیں جن میں خواتین بھی شامل ہیں وہ خودپولیو مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے خود گھروں میں جاکر لوگوں کو یہ باورکراتے ہیں کہ ان کے والدین سے یہ غلطی ہوئی ہے لہٰذا اس حساس ترین مسئلہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے بچوں کو مستقل معذوری سے بچانے کیلئے قطرے ضرور پلائیں وگرنہ یہ تمام عمر محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہونگے۔
کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہتا کہ ان کے بچوں کی زندگی تاریکیوں میں گزرے بلکہ وہ ان کے لیے ایک تابناک اورشاندار مستقبل چاہتے ہیں تاکہ وہ زندگی میں اپنا ایک بہترین مقام بناسکیں مگر یہ تب ہی ممکن ہوگا جب وہ مکمل صحت اورتندرستی کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے۔ اس لئے والدین کو خود اس حوالے سے سوچنا ہوگا کہ انہیں اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے کیا فیصلہ کرنا چاہئے بجائے کسی پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے۔لہذا اس حوالے سے معلومات اور آگاہی لیں اور آج کی دنیا میں اس کیلئے سہولیات آسانی سے میسر ہیں۔
ماہرین سے رجوع کرتے ہوئے تمام تر حقائق سے خود آشناہوسکتے ہیں۔خدارا بچوں کے مستقبل کے ساتھ نہ کھیلاجائے جوعناصرپولیو ویکسیئن کے متعلق منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں ان کے خلاف ریاست کو بھی ایکشن لینا چاہئے تاکہ ملک کے مستقبل کے معماروں کی زندگیوں کو محفوظ بنایاجاسکے۔