ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے پی ڈی ایم کے دو جلسے ہوچکے ہیں گوجرانوالہ کے بعد کراچی کے جلسہ میں بھی لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت سے انکار نہیں کیا جاسکتا گوکہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ کراچی کا جلسہ گوجرانوالہ سے سے بڑا تھا کیونکہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اندرون سندھ اور کراچی کے مختلف علاقوں میں پیپلزپارٹی کاایک اچھا خاصا ووٹ بینک ہے اسی طرح جے یوآئی ف کی بھی اندرون سندھ میں اثر ہے۔ دوسری جانب کراچی جلسے میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے بھی ورکروں کی شرکت دیکھنے کو ملی ہے۔
فی الحال اپوزیشن کے جلسے جاری ہیں مگر اسے تحریک کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا کیونکہ ماضی کی تحریکوں کا جائزہ لیاجائے وہ بالکل ہی الگ نوعیت کے تھے مکمل طور پر وہ اپوزیشن میں رہ کر تحریک چلاتے رہے ہیں اس وقت پیپلزپارٹی سندھ حکومت کا حصہ ہے اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان حکومت کا حصہ ہے جوکہ تحریکی لحاظ سے اس کے برعکس ہے جب تک یہ تضاد اور سیاسی طریقہ کار واضح نہیں ہوگا اسے تحریک نہیں کہاجاسکتا۔جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کے جلسوں کی بات ہے تو اس میں بیشتر اپوزیشن رہنماء مہنگائی اور عوامی مسائل پر زیادہ بات کررہے ہیں جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔
اداروں کو درمیان میں لانے کے معاملے پر اگر بات کی جائے تو اپوزیشن کے چند قائدین کی جانب سے اداروں پر تنقید کی جارہی ہے تو وہیں پر حکومت بھی اداروں کو درمیان میں لانے کی نادانی پر گامزن ہے جس طرح سے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے خواجہ آصف کی نشست کا حوالہ دیا تھا یہی بات وزیراعظم عمران خان نے ٹائیگر فورس سے خطاب کے دوران دہرائی۔جوش خطابت میں جو بیانات نادانی یا پھر شدید تنقید کی بنیاد پر دیئے جارہے ہیں اس سے خود اداروں کو حکومت واپوزیشن اپنی جنگ میں گھسیٹ رہے ہیں۔حکومت کیلئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج عوامی مسائل ہیں۔
اس پر حکومت زیادہ توجہ دے تو عوامی ہمدردیاں وہ اپنی طرف کھینچ سکتا ہے کیونکہ اس وقت ملک میں شدید ترین مہنگائی ہے، بحرانات بڑھ رہے ہیں بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے لوگ مختلف مسائل سے دوچار ہیں جنہیں ہنگامی بنیادوں پر ریلیف فراہم کرنے کیلئے حکمت عملی اپنانی چاہئے جوکہ ٹائیگر فورس کے ذریعے قطعی ممکن نہیں اس کیلئے وزیراعظم پوری حکومتی مشینری کواستعمال کرتے ہوئے مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائیں اور اس کے آثار بھی دکھائی دیں کیونکہ پی ڈی ایم میں شامل دیگر چھوٹے صوبوں کے قائدین بھی اپنے صوبوں کے مسائل کا شکوہ کررہے ہیں کہ انہیں وہ مقام نہیں دیا گیا۔
جس کا وعدہ ان کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بلوچستان کے لیڈران بھی اپنے وسائل پر جائز حصہ کے مطالبہ سمیت بلوچستان کے بنیادی مسائل کی بات کررہے ہیں ماضی میں جوکچھ حکمرانوں نے کیا وہ اب قصہ پارینہ بن چکا ہے لہٰذا موجودہ حکومت موجودہ حالات کے تناظر میں پالیسی اپناتے ہوئے فاصلوں اور ناراضگیوں کو دور کرنے کیلئے کام کرے اور اسی طرح عوامی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر زیادہ توجہ دے تاکہ عوام میں موجود بے چینی وغصہ میں کمی آئے کیونکہ عام لوگ بھی اس وقت جلسہ میں اس لئے شرکت کررہے ہیں ان کے مسائل کو بھی اپوزیشن لیکر چل رہی ہے۔
اس لئے عوام کا جھکاؤ ان کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ تحریک کی شکل اختیار کر گئی تو حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے مگر دونوں فریقوں کویہ ضرور سوچنا چاہئے کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے اس نازک دور کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ملکی مفادات کو اولیت دیں تاکہ ملک میں انتشارکی کیفیت پیدا نہ ہو۔