|

وقتِ اشاعت :   October 30 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اسدخان اچکزئی کی عدم بازیابی پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی فوری اور بحفاظت بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں، عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، ان خیالات کااظہار حکومتی اور اپوزیشن اراکین نے اسدخان اچکزئی کی عدم بازیابی سے متعلق تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔

جبکہ اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرنے والے میر نصیب اللہ مری نے یہ رولنگ بھی دی کہ اب تک واقعے سے متعلق اب تک ہونے والی پیشرفت سے ایک ہفتے میں اسمبلی کو آگاہ کیا جائے۔گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ گزشتہ دو سال سے بدامنی کے واقعات رونما ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ چمن، پشین،لورالائی،سنجاوی، زیارت، ہرنائی، اورماڑہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں اب تک ملوث کسی ملزم کو گرفتار نہیں کیاگیا نہ ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہے وزیراعلیٰ بدامنی کے واقعات کی روک تھام نہیں کرسکتے تو مستعفی ہوجائیں۔

انہوں نے کہا کہ 25ستمبر کو عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات جو گردوں کے امراض میں بھی مبتلا ہیں انہیں اغواء کیا گیا اورایک مہینے سے زائد کاعرصہ گزرنے کے باوجود انہیں اب تک بازیاب نہیں کرایا جاسکا ہے نہ ہی اس حوالے سے وزیراعلیٰ بلوچستان، وزیر داخلہ اور سیکورٹی اداروں نے کوئی واضح بات کی ہے کوئی اجلاس تک طلب نہیں کیا گیا انہوں نے کہا کہ آج کے اجلاس میں وزیر داخلہ، آئی جی پولیس، ڈی آئی جی پولیس کو ایوان میں موجودہونا چاہئے تھا لیکن ان میں سے کوئی فرد یہاں موجود نہیں ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسدخان اچکزئی کو ایک ہفتے کے اندر بازیاب کرایا جائے اور اب تک ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کو ایوان کیا جائے۔ صوبائی وزیر واسا نور محمد دمڑ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک سیاسی و قبائلی شخصیت کا اغواء ہے تاہم اب تک ان کے خاندان نہ ہی پارٹی کی جانب سے کسی کی نشاندہی کی گئی ہے حکومت تحقیقات کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات موجودہ حکومت میں پیش نہیں آ ئے بلکہ گزشتہ حکومتوں میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آتے رہے ہیں جن میں اس معزز ایوان کے رکن اور صوبائی وزیر بلدیات مصطفی خان ترین کے بیٹے، نواب ارباب عبدالظاہر کاسی اورسیکرٹری سمیت دیگر شخصیات کا اغواء شامل ہے یہ واقعات سابق ادوار میں ہوتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں حکومت کو سپورٹ کرنے کی ضرورت ہے حکومت واقعے سے متعلق تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اصغرخان اچکزئی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اسدخان اچکزئی کے اغواء کے واقعے پر آج تحریک التواء پر بحث ہورہی ہے لیکن اس ایوان کو کس قدر اہمیت دی جاتی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آج نہ تو وزیر داخلہ ایوان میں موجود ہیں نہ ہی محکمہ داخلہ کے افسران موجود ہیں۔

اب اگر ڈپٹی سپیکر کوئی رولنگ دیں یا وہ چیمبر میں بریفنگ لینا چاہیں تو انہیں کون آکر بریفنگ دے گا محکمے کا کوئی افسر توموجود ہی نہیں یہ ایوان بالاترہے اس ایوان کو سب جوابدہ ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر حسین لانگو نے تحریک التواء کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ اس ایوان کی اہمیت کو جتنا ہم اراکین نے خودکم کیا اتنا کسی نے نہیں کیا گزشتہ اجلاس میں اس ایوان میں جمہوری قوتوں کے خلاف مذمتی قرارداد لاکر ہم نے خود ایوان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی۔

اس ایوان میں عوامی مسائل پر بحث ہوتی ہے مگر ان پر پیشرفت نہیں ہوتی انہوں نے کہاکہ جب بھی ایوان میں ہم امن وامان پر بحث کرتے ہیں تو یہاں پر آفیشل گیلری خالی رہتی ہے آج اتنی اہم تحریک التواء پر بحث ہورہی ہے مگر وزیر داخلہ سمیت پولیس،محکمہ داخلہ کے آفیسران سمیت کوئی نہیں انہوں نے اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئرمین سے استدعا کی کہ آئندہ اجلاسوں میں چیف سیکرٹری کو پابند کیاجائے کہ وہ اپنی اور متعلقہ آفیسران کی موجودگی کویقینی بنائیں۔انہوں نے کہاکہ 25ستمبر کو اے این پی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات اسد خان اچکزئی کو ائیرپورٹ روڈ سے اٹھایا گیا۔

یہ کوئٹہ کی انتہائی اہم ترین شاہراہ ہونے کے ساتھ وی آئی پی روٹ بھی ہے جس پر سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں ان کی فوٹیج دیکھی جائیں انہوں نے کہاکہ ایک ماہ گزر جانے کے باوجود اسد خان اچکزئی کے بارے میں اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ انہیں کسی نے اٹھایا یا اغواء کیاہے اب تک صورتحال واضح نہیں ہے اور تفتیش کی رفتار بھی مشکوک ہے انہوں نے مطالبہ کیاکہ اسد خان کی بازیابی کے حوالے سے پولیس سمیت متعلقہ حکام ارکان اسمبلی کو بریفنگ دیں۔اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہاکہ ریاست عوام کی جان ومال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔

جس کی ضمانت آئین دیتاہے اور اگر حکومت یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی ہے تو پھر حکمرانوں کو اقتدار میں رہنے کا حق بھی نہیں ہوتا اگر حکومت میں تھوڑی سی حس ہوتی تو اسد خان اب تک بازیاب ہوچکے ہوتے اور قانون کی بالادستی قائم ہوچکی ہوتی انہوں نے کہاکہ حکومتی رکن کی جانب سے ہم سے پوچھا جانا کہ ہم اسد خان کے بارے میں انہیں کچھ بتائیں اگر ہمیں خود علم ہوتا توہم خود انہیں بازیاب کرانے کی اپنی حدتک کوشش کرتے حکومتی رویہ قابل مذمت ہے انہوں نے اسد خان ایک بیمار انسان ہے ہمیں حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں متعلقہ سرکاری حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسد خان کی بازیابی کیلئے اقدامات کئے جائیں۔