وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ملکی اداروں میں ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ہائبرڈ وار چل رہی ہے اور ملک میں نفسیاتی اور حقیقی طور پر ناامیدی کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ڈان لیک،آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی)، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مزارقائد، گوجرانوالہ اور کوئٹہ جلسہ سب نے دیکھا جہاں اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ کراچی میں مزار قائد کی توہین کی گئی اور بلوچستان کے خلاف بات کی گئی۔
ن لیگی رہنما ء ایاز صادق نے ایسی تقریر کی جس سے پاکستان میں بحث چھڑ گئی۔ ایاز صادق اور جلسوں کی تقاریر کو ہمارے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے جس پر ایاز صادق کو کوئی ندامت نہیں ہے اور نہ ہی وہ معافی مانگنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے تاہم ہماری حکومت سیاسی غنڈہ گردی نہیں ہونے دے گی۔پی ڈی ایم کا بیانیہ فیٹف سے لے کر سیاسی اور ملکی مفاد کے خلاف ہے جبکہ پی ڈی ایم کے بیانیے سے پاکستان کی فتح کو ناکام بتانے کی کوشش کی گئی۔شبلی فراز نے مزید کہا کہ ن لیگ نے عوام کے پیسے لوٹ کر جائیدادیں بنائیں۔
اور اب باہر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، حزب اختلاف نے ملک کی خدمت نہیں بلکہ منافقت کی سیاست کی۔شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اقتدار سے پہلے ہمیں ملک انتہائی خراب حالت میں ملا کیونکہ جب حکومت سنبھالی تو ملک کی معیشت خراب تھی اور ہم دیوالیہ کے قریب تھے، اگر ہم ڈیفالٹ ہو جاتے تو ملک کی کرنسی بہت حد تک گر جاتی۔شبلی فراز نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے دوست ممالک کے ساتھ مل کر ملک کودیوالیہ ہونے سے بچالیا، ملک پر قرضوں کا انبار تھا اور ہمیں اقساط دینی تھیں تاہم وزیر اعظم نے معیشت کو استحکام دیا۔
بہرحال ہمیں ملک کی سیاسی حالات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر کس طرح سے اداروں اور ملکی سالمیت کی پرواہ کئے بغیر اقتدارکی رسہ کشی کیلئے عوامی رائے عامہ کے برعکس اقدامات اٹھائے گئے۔ کیا آج سیاسی جماعتیں تاریخی حوالہ جات دیتے دکھائی نہیں دیتیں،ذوالفقار علی بھٹو اور ایوب خان کی قربت اورتعلقات پر کیا کچھ نہیں کہاجاتا کہ دونوں ایک دوسرے کے کتنے قریب تھے۔اور سیاسی مفادات کے تحت شیخ مجیب الرحمان کواکثریت لینے کے باوجود انہیں کس طرح سے دیوار سے لگایا گیا اور پھر بعد میں ذوالفقار علی بھٹو نے الگ سیاسی نظریہ اپناتے ہوئے راستے جدا کردئیے۔
اسی طرح ضیاء الحق اور نواز شریف کے درمیان مضبوط تعلقات اور سیاست کی بلندیوں تک پہنچانے کا سفر کس طرح طے کیا گیا اس کی مثالیں نہیں دی جاتیں پھر نوازشریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان شدید اختلافات سب کے سامنے ہیں کہ ایک دوسرے کے خلاف انتقامی سیاست کے دوران جیل بھیجنا،ملک بدر کرنا، وزراء عظمیٰ کی برطرفیوں پر مٹھائیوں کی تقسیم سرعام نہیں کی جاتی تھیں؟کیا اس دوران جمہوریت کا جنازہ نہیں نکالاجارہا تھا اور کیا اس عمل کا ادراک ان سیاستدانوں کو نہیں تھا کہ یہ تمام تر عوامل مستقبل میں ملک کی سیاست، جمہوریت اور معیشت پر کس قدر اثر انداز ہوں گے۔
کیا یہ بھی لوگ بھول چکے ہونگے کہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیراعظم نے اداروں کے سربراہان اور پالیسیوں پر تنقید نہیں کی تھی کہ ملک میں جمہوری استحکا م کیلئے وہ الگ پالیسی لیکر آئینگے اور اس کے بعد چار حلقے کھولنے کیلئے اسلام آباد میں ایک طویل دھرنے کے دوران اداروں پر حملہ نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہ وہ حقائق ہیں جس کے اثرات اب کھل کر سامنے آرہے ہیں اور اب انتہائی شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں مگر حالات کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتیں تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے جمہوری عمل کو اپناتے ہوئے پارلیمنٹ کے تقدس، آئین کی بالادستی کیلئے جو جدوجہد کررہے ہیں۔
مگر کسی غیر جمہوری عمل سے دور رہ کر فیصلہ کریں اور یہ دونوں فریقین حکومت اوراپوزیشن کو اپنانا چاہئے۔ جب قانون کی بالادستی یقینی ہوگی تو ادارے درمیان میں کیسے آسکتے ہیں خود اداروں کو اپنی اس جنگ میں گھسیٹنا اور اپنے مفادات کے حصول کیلئے کسی بھی غیر سیاسی وجمہوری عمل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے صرف اہداف حاصل کرنا مقصود ہوگا تو اور بھی بھیانک نتائج برآمد ہونگے جس کا متحمل ملک نہیں ہوسکتا اس لئے ضروری ہے کہ جس آئین کا حلف اٹھایاگیا ہے اسی پر ایمانداری کے ساتھ عمل کرنا ضروری ہے اور اپنے سیاسی رویوں میں تبدیلی لانا ضروری ہے ورنہ تاریخ سامنے ہے مزید تجربات نقصانات اور بحرانات کا سبب بن سکتے ہیں۔