دالبندین: قبائل میں شمولیت اور تبدیلی کا نیا طریقہ نمودار۔ تفصیلات کے مطابق سیاسی جماعتوں میں شمولیت و استعفیٰ کا تو ہر کسی نے دیکھا اور سنا ہوگا مگر اب دالبندین و گردونواح میں قبائل میں شمولیت کا نیا رواج زور پکڑتا جارہا ہے لوگ چند سال قبل کسی اور قبیلے میں شمار ہوتے تھے مگر اب وہ اپنے اپنے قبائل تبدیل کرلیتے ہیں بعض مقامات پر چند لوگوں کا اجتماع بنا کر اسے جرگے کا نام دے کر اپنے آپ کو کسی دوسرے قبیلے سے جوڑا جاتا ہے۔
جن میں بعض با اثر اور تعلیم یافتہ لوگ سمیت علماء کرام بھی ایسے کاموں میں مصروف دکھائی دینے لگے ہیں یہ طریقہ کار افغان مہاجرین کی آمد کے بعد شروع ہوا مگر اب قبائل میں شمولیت یا تبدیلی کا رواج زور پکڑتا جارہا ہے اور آئے روز قبائلی اجتماعات اور قبائل کی تبدیلی کے قصے ہر زبان زد عام و خاص پر عیاں ہے ضلع چاغی کے بنیادی اور قبائلی پیچ و تاب سے واقف قبائلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قبائل میں شمولیت یا تبدیلی ایک گھناؤنا عمل ہے۔
اسلام بھی قبیلے کی تبدیلی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا مگر دالبندین سمیت ضلع چاغی میں بعض اوقات لوگوں کی جانب سے اپنے قبیلوں کی تبدیلی کا سن کر وہ ششدر رہ جاتے ہیں انہوں نے خان آف قلات اور چیف آف چاغی سردار محمد حاکم علی خان سنجرانی سے مطالبہ کیا کہ وہ ضلع چاغی میں لوگوں کی قبائل میں شمولیت اور تبدیلی کا نوٹس لے کر اپنا کردار ادا بصورت دیگر لوگ حقیقی اور اہم و پرانے قبائل کو خیرباد کہہ کر من پسند قبائل میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔
جس سے چاغی کے قبائلی معاشرے میں مختلف قسم کے مسائل جنم لیں گے۔ کیونکہ قبائل انسان کی اصل پہچان ہے اور لوگوں نے اپنے اپنے قبائل کے لیئے قربانیاں دی ہیں قبائل کی تبدیلی یا شمولیت و استعفے باشعور اقوام میں عیب سمجھا جاتا ہے۔
مگر دالبندین و چاغی ضلع میں قبائلی اثر و رسوخ میں کمی اور تاریخی حقائق سے ناواقفیت اصل مسائل کی جڑ ہے جس کے سبب لوگ قبائل اپنانے اور شمولیت و تبدیلی کو محض وقتی سمجھ کر مفادات کے شکار بن جاتے ہیں جس کے لیے اہم قبائلی سربراہان اپنا کردار ادا کریں ورنہ آنے والی نسلیں انھیں ہر گز معاف نہیں کریں گے۔