وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں سرکس لگی ہوئی ہے۔ اپوزیشن کیسز معاف کرانے کے لیے مجھے بلیک میل کر رہی ہے۔ جتنے مرضی جلسے کر لیں جب تک قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس نہیں کریں گے میں انہیں نہیں چھوڑوں گا۔حافظ آباد یونیورسٹی کے سنگ بنیاد اور جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال کی تعمیر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جنہوں نے 30 سال میں ملک کو لوٹا اب انہوں نے سرکس لگائی ہے۔ ہم نے ان کے خلاف نئے کیسز نہیں بنائے، یہ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف بنائے تھے۔ ان کے دور میں نیب غلام تھا، ہمارے دور میں نیب آزاد ادارہ ہے۔
یہ کہتے ہیں کہ ان سے چوری کا نہ پوچھا جائے۔ نوازشریف نے عجیب شکل بنائی، کہا گیا کہ مرنے والا ہے۔ نوازشریف کی شکل دیکھ کر کابینہ میں بھی 2 خواتین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لندن جاتے ہی نوازشریف کی ساری بیماریاں ختم ہوگئیں۔وزیراعظم نے کہا کہ جب میں نہیں مانا تو انہوں نے اداروں پر حملے شروع کیے۔ ہماری حفاظت کرتے ہوئے کئی فوجی شہید ہوگئے۔ نوازشریف اپنی فوج کے خلاف ہندوستان کی زبان بول رہا ہے۔ نوازشریف تمہاری طرح میر جعفر اور میر ایازصادق کا مقابلہ کروں گا۔ نوازشریف لندن میں بیٹھ کرفوج کے خلاف سازش کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیزل نے کہا کہ عمران کی وجہ سے اسلام خطرے میں ہے۔ میری وجہ سے نہیں آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے اسلام خطرے میں ہے۔ چیلنج کرتا ہوں میرے علاوہ کس نے ناموس رسالت کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا؟ میں نے یہ سب ووٹ کے لیے نہیں کیا، یہ میرے ایمان کا معاملہ ہے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ حافظ آباد یونیورسٹی اور 400 بیڈز پر مشتمل اسپتال بنانے کا فیصلہ کیا۔ جلد سے جلد ان منصوبوں کو مکمل کیاجائے گا۔ حکومت کا فرض ہے کہ عوام کی ضروریات کو پورا کیاجائے۔بہرحال ملک کی جوموجودہ صورتحال ہے وہ صرف بیڈگورننس ہے۔
اسے حکومتی حلقے تسلیم کریں یا نہ کریں مگر یہی ایک بنیادی وجہ ہے جو حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے عوام اگر آج سڑکوں پر دکھائی دے رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ مہنگائی، بیروزگاری، علاج معالجے کی سہولیات کا نہ ہونا، ہرچیز کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ اور لوگوں کو روزگار سے ہاتھ دھوناپڑرہا ہے عوامی مسائل اس قدر گھمبیر ہوتے جارہے ہیں کہ ان کو حل کرنا محال ہوچکا ہے۔اگر موجودہ حکومت اپنی توجہ صرف بہتر حکمرانی اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے پر لگائے تو عوام حکومتی اقدامات اور فیصلوں کے ساتھ جائے گی اور یہی ایک وجہ ہے کہ عوام کے اندر شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب اداروں کو سیاست میں گھسیٹنا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ حکومتی حلقے اور اپوزیشن دونوں اطراف سے ہر بار اداروں کو درمیان میں لایا گیا ہے جس کے اپنے سیاسی مقاصد تھے،اول روز سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے مگر کسی جانب سے پہل نہیں کی گئی کہ گرینڈ ڈائیلاگ کے ذریعے ملک میں موجود حقیقی مسائل کوحل کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے اور آج بھی ایک ہی راستہ دکھائی دے رہا ہے اوروہ ہے بات چیت جس کے بعد درمیان کا راستہ نکل سکتا ہے مگر ایک دوسرے پر الزامات اور غداری جیسے القابات، ناموس رسالت کو درمیان میں لانا حالات کا سدباب نہیں کرسکتا بلکہ مزید فریقین کے درمیان کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
تو اس لئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح پر ٹیم تشکیل دی جائے جو اپوزیشن سے ان مسائل پر بات کرے جو اس وقت عوام کو درپیش ہیں تاکہ دیگر جو تحفظات دونوں اطراف پائے جاتے ہیں ان کو بھی حل کرنے کا راستہ نکل سکے وگرنہ بیان بازی مزید ملک کیلئے مسائل کا باعث بن تو سکتی ہے مگر مسائل کوکوئی حل نہیں نکل سکے گا۔