وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ اسکولوں کے حوالے سے فیصلہ اگلے ہفتے اجلاس میں ہوگا، بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔شفقت محمود کا کہنا تھا کہ تجویز ہے کہ سلیبس کو کم اور گرمیوں کی چھٹیوں کو ختم کر دیں یا اکیڈمک سال آگے کردیں لیکن بچوں کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔وزیر تعلیم نے کہا کہ پورے ملک میں نصاب کو ایک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لوکل گورنمنٹ کا سسٹم تیار ہو گیا ہے، جلد نافذ کریں گے۔شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ہیلتھ سہولت کارڈ سے ایک خاندان 7لاکھ 40 ہزار روپے کا علاج کسی بھی اسپتال سے کرا سکتا ہے۔
یہ ایک بہترین سہولت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کم آمدنی والے خاندانوں میں 12ہزار روپے کے حساب سے رقوم فراہم کی گئیں، جلد ریڈیو چینل کے ذریعے پہلی جماعت سے 5ویں جماعت کے طلبا ء کو تعلیم دی جائے گی۔وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں الگ الگ طبقہ اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں، ہم نے کورونا سے پہلے 50 ہزار طلبہ کو ٹیکنالوجی کے اداروں میں مفت داخلے دئیے۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ جدید طرز کے لیکچرز اور تعلیمی نظام پر کام شروع کر دیا ہے، ٹیلی میڈیسن کے شعبہ میں بہت کام ہو رہا ہے۔
اس سے قبل تعلیمی اداروں کی 15اکتوبر سے بندش کے متعلق بھی بازگشت جاری تھی کہ وزیر تعلیم شفقت محمود نے تعلیمی ادارے بند ہونے سے متعلق خبروں کو غلط اور جعلی قرار دیاتھا۔دوسری جانب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کوملاہے جس میں اسلام آباد کالج فار بوائز جی سکس تھری میں کورونا کے مثبت کیسز سامنے آئے ہیں، مذکورہ کالج میں 3 اساتذہ کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھاجس کے بعد ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے تعلیمی ادارے کو سیل کرنے کا مراسلہ جاری کردیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں رینڈم ٹیسٹنگ کے دوران کیسز سامنے آئے، دو سے زائد کیسز پر کسی بھی تعلیمی ادارے کو سیل کردیا جائے گا۔تعلیمی اداروں میں اس وقت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بچوں کی جان کو اس سے خطرہ لاحق ہوگابہرحال اس وقت تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے کیسز کے حوالے سے حالات کنٹرول میں ہیں اور زیادہ کیسز بھی سامنے نہیں آئے ہیں مگر تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کو اس بات کا پابند بناناضروری ہے کہ ایس اوپیز کے حوالے سے کسی صورت غفلت کا مظاہرہ اور سمجھوتہ نہ کریں اور اس عمل کو مسلسل جاری رکھیں تاکہ والدین اپنے بچوں کو گھر سے ماسک اور گلوز پہناکر بھیجیں۔
اسی طرح تعلیمی اداروں کے اندر سینیاٹائزر سمیت سماجی فاصلوں کا مکمل خیال رکھاجائے تاکہ کورونا وائرس سے طلباء وطالبات متاثر نہ ہوں۔ دوسری جانب ٹیکنالوجی کااستعمال بھی ان حالات میں سود مند ثابت ہوسکتا ہے جس سے استفادہ کرتے ہوئے تعلیمی سرگرمیاں بحال رکھنے کیلئے آن لائن کلاسز کا اجراء کیا جاسکتا ہے مگر سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جہاں پر مواصلاتی نظام اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں وہاں پر ان تمام تر سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں خاص کر بلوچستان میں یہ مسئلہ سب سے زیادہ ہے۔
بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں مواصلاتی نظام اور خاص کر انٹرنیٹ کی کوئی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں ہے لہٰذا بلوچستان کو یہ سہولت فراہم کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے ہنگامی صورتحال کے دوران بلوچستان کے طلباء وطالبات کو اپناتعلیم جاری رکھنے کی سہولت میسر آ سکے۔جب کورونا وائرس کی پہلی لہر آئی تھی تو اس دوران آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا تھا جس کیخلاف سب سے زیادہ احتجاج بلوچستان کے اسٹوڈنٹس نے کیا تھا کیونکہ ان کے علاقوں میں انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں تو کس طرح وہ آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں۔بلوچستان کو ترجیحات میں رکھاجائے اور یہاں پر بنیادی انفراسٹرکچر فراہم کیاجائے تاکہ بلوچستان کے عوام کی مشکلات میں کمی آسکے۔