|

وقتِ اشاعت :   November 22 – 2020

بلوچستان یوتھ اینڈ سول سوسائٹی(BYCS)کی طرف سے اکتوبر 2020 کے مہینے میں بلوچستان کی شاہراہوں پر رو نما ہونے والے ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار جاری کردیئے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں اکتوبر کے مہینے میں 1025 حادثات رو نما ہوئے جن میں 127 افراد جاں بحق اور 1388 زخمی ہوئے۔کوئٹہ، مستونگ پشین، قلات بوستان، کچلاک 252 حادثات 350 زخمی اور 38 اموات ہوئے،خضدار، سوراب، لسبیلہ، گڈانی، حب، وندر، اوتھل، 465 حادثات جبکہ 593 زخمی اور 42 اموات، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ میں 69 حادثات کے دوران 99 افراد زخمی جبکہ 7 اموات۔

ژوب،زیارت، ہرنائی، لورالائی،دکی،شیرانی خانوزئی، خان مہترزئی، سنجاوی، مانی خواہ، بادیزئی میں 110 حادثات کے دوران 129افراد زخمی جبکہ 10 لوگ زندگی کی بازی ہارگئے۔نوشکی، خاران،دالبندین،،چاغی، بسیمہ، نوکنڈی میں 37 حادثات کے دوران 61 افراد زخمی جبکہ 4 اموات۔گوادر، تربت،، اورماڑہ، پسنی، پنجگور، کیچ میں 33 حادثات میں 49 افرادزخمی، 4 اموات۔سبی، بولان، نصیرآباد، ڈیرہ مراد جمالی،،بارکھان، صحبت پور، ڈیرہ بگٹی،جھل مگسی، اوستہ محمد، جعفرآباد، سوئی، کوہلو میں 59 حادثات میں 107افراد زخمی جبکہ 22 اموات ہوئے۔

حادثات میں جاں بحق افراد میں 15 معصوم بچے اور 13 خواتین بھی شامل ہیں۔بلوچستان کی قومی شاہراہوں پر روزانہ ٹریفک حادثات معمول بن چکے ہیں جس میں معصوم شہری جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں اس میں جہاں ڈرائیورز کی غفلت شامل ہے وہیں پر خستہ حال اور تنگ شاہراہیں بھی ان حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔دوسری جانب بلوچستان کی اہم شاہراہ کوئٹہ کراچی جوکہ انٹرنیشنل روٹ کے طور پر جانا جاتا ہے اس شاہراہ پر روزانہ حادثات سے لوگ جان کی بازی ہارجاتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ شاہراہ کا دورویہ نہ ہونا ہے اور یہی مطالبہ بلوچستان کے شہریوں کی جانب سے متواتر کیاجارہا ہے کہ خدارا اس شاہراہ کو دورویہ کیاجائے۔

اس حوالے سے شہریوں نے کراچی تک لانگ مارچ بھی کیا مگر بدقسمتی سے ان کے مطالبے کو پذیرائی نہیں ملی۔ وفاقی حکومت سے بھی بارہا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے مگر افسوس کہ وہ اس حساس نوعیت کے مسئلہ کوسنجیدگی سے ہی نہیں لے رہا۔ جتنی قیمتی جانیں بلوچستان میں اب ٹریفک حادثات میں ضائع ہورہی ہیں اتنی تخریب کاری ودیگر کرائم کے حوالے سے نہیں ہورہیں۔ کیابلوچستان کے عوام کا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ انہیں بہترین شاہراہیں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دورویہ کیاجائے،انہیں ٹرانسپورٹ کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے بجٹ میں مخصوص رقم مختص کی جائے تاکہ جلد اس پر کام شروع کیا جاسکے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کی باتیں تمام مرکزی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں مگر اسے صرف سیاسی سلوگن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور جب بھی موقع ملتا ہے تو بلوچستان کو کیش کرکے جوشیلے انداز میں تقاریر کرکے یہاں کے عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلاجاتا ہے۔یہ سب کے علم میں ہے کہ بلوچستان واحد صوبہ ہے جو اپنے میگامنصوبوں سے وفاق کو براہ راست فائدہ پہنچارہا ہے اور قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے دے رہا ہے مگر بدلے میں بلوچستان کو کیا مل رہا ہے۔دیگر مسائل تو اپنی جگہ جوں کے توں ہیں المیہ تو یہ ہے کہ انٹرنیشنل روٹ پر کوئی بہترین اسپتال اور موبائل سسٹم بھی موجود نہیں کہ حادثے کے بعد لوگوں کی جانوں کو بروقت بچایاجاسکے،انہیں کراچی منتقل کرناپڑتا ہے خدارا بلوچستان کے عوام پر رحم کرکے کم ازکم شاہراہوں کی تعمیر کے حوالے سے وفاقی حکومت اپنا فرض پورا کرے تاکہ انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایاجاسکے۔