قومی اداروں کی خسارے میں جانے کی بنیادی وجوہات اور محرکات پر کبھی بھی کسی حکومت نے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ خسارے کو جواز بناکر منافع بخش قومی اداروں کی نجکاری کو ترجیح دی۔ یہ سلسلہ گزشتہ کئی ادوار سے چلاآرہا ہے۔ن لیگ کی حکومت کے دوران بھی قومی اداروں کی نجکاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی دلیل یہ دی گئی کہ ادارے منافع دینے کی بجائے قومی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں جس کی وجہ سے نقصان اٹھاناپڑرہا ہے لہٰذا ان کی نجکاری سے قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کا ازالہ ہوسکتا ہے۔ اب تک جن اداروں کی نجکاری کی گئی ہے۔
اس سے غریب ملازمین کو کتنا فائدہ پہنچااور قومی خزانے میں کتنی رقم جمع ہوئی، یہ کبھی سامنے نہیں لایا گیا، کیونکہ کوئی فائدہ ہو تو نظر آئے۔البتہ یہ ضرور ہوا ہے کہ کمپنیوں کے مالکان نے اپنے مفادات کو ترجیح دی اور ملازمین کے استحصال سمیت عوام کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا جس کی ایک واضح مثال کے الیکٹرک اورپی ٹی سی ایل ہے۔ پی ٹی سی ایک انتہائی نفع بخش ادارہ ہے جو حکومت کو کما کر دے رہا تھا لیکن اس سے بھی جان چڑائی گئی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو اس نے اداروں کی نجکاری کی سب سے زیادہ مخالفت کی تھی۔
اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اداروں کے اندر اصلاحات لاکر منافع بخش بنانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کی زندگی میں بہتری لائے گی مگر اب حکومت اس معاملے پر بھی یوٹرن لیتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔یقینا یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ منافع بخش قومی اداروں کو زوال کی طرف لے جانے کے پیچھے کرپٹ افسران کا ہاتھ ہے مگر اس کی سزا غریب ملازمین کو دینا کہا ں کا انصاف ہے جبکہ یہی وہ ادارے تھے جو کسی زمانے میں نہ صرف پیداواری صلاحیت میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے بلکہ قومی خزانے کواربوں روپے کا منافع بھی پہنچاتے تھے۔
المیہ یہ ہے کہ اقرباء پروری اور بے ضابطگی کرنے والوں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے اداروں کی نجکاری پر ہر حکومت نے زور دیا اگر نیک نیتی کے ساتھ قومی اداروں کو چلایاجائے تو یہ ادارے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر ملک کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔ اسٹیل ملزکی نجکاری کا معاملہ کئی برسوں سے چل رہا تھا مگر اب موجودہ حکومت نے فائنل فیصلہ کرلیا ہے کہ اس کی نجکاری کی جائے گی۔ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے فولاد سازی کے سب سے بڑے قومی ادارے پاکستان اسٹیل ملز کے 4 ہزار 544 ملازمین کو برطرف کردیا۔ترجمان اسٹیل ملز کے مطابق جن ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے۔
ان میں پے گروپ 2، 3، 4 کے ملازمین کے علاوہ جونیئر آفیسرز (جے اوز)، اسسٹنٹ منیجرز، ڈویژنل منیجر، ڈی سی ای، ڈی جی ایم اور منیجرز بھی شامل ہیں۔ترجمان کے مطابق ملازمین کو بذریعہ ڈاک برطرفی کے خطوط ارسال کردئیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ رواں سال 9 جون کو وفاقی کابینہ نے پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی تجویز کی منظوری دی تھی۔اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 3 جون 2020 کے اجلاس میں پاکستان اسٹیل کے 9 ہزار سے زائد ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک دے کر فارغ کرنے کی سفارش کی تھی۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے پاکستان اسٹیل ملز سے ہزاروں ملازمین نکالنے کے حکومتی فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اسٹیل مل قومی اثاثہ ہے لیکن ماضی میں جو ہوا وہ کرپشن کی کہانی ہے، اس کو سیدھا کرنے کے لیے ہمیں مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ 2008میں اسٹیل مل منافع بخش ادارہ تھا، اس وقت اسٹیل مل کے اکاؤنٹس میں 8 ارب روپے پڑے تھے۔ان کا کہنا ہے کہ 55 ارب روپے حکومت پنشن اور تنخواہ کی مد میں ادا کر چکی اور بند مل کے ملازمین کو 75 کروڑ ماہانہ تنخواہ کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔
اس وقت اسٹیل ملز کے 670 ملازمین موجود ہیں۔حماد اظہر نے ملازمین کے نکالنے کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پتا ہے اس معاملے پر سیاست ہوگی، اگر بروقت فیصلے ہوتے تو اتنے پیسے نہ لگتے، یہ پیسہ مختلف شعبوں پر لگاتے تو ہزاروں نوکریاں پیدا ہوتیں۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ دو ہزار ارب سے زیادہ قومی اداروں کے نقصانات ہیں، سرکاری اداروں کے نقصانات ہمارے دفاعی بجٹ سے زیادہ ہیں تاہم جن ملازمین کو نکالا جا رہا ہے، ان کو فی ملازم اوسطاً 23 لاکھ روپے دیا جائے گا۔بہرحال ہر حکومت اپنے غلط فیصلوں کا دفاع بھی بھرپور انداز میں کرتی ہے۔
مگرکیا مسئلہ صرف نجکاری اور ملازمین کو نکالنے سے حل ہوگا جس طرح خود وفاقی وزیر فرمارہے ہیں کہ ادارے کی تباہی کی وجہ کرپشن کی داستان ہے تو آخر کرپشن کی کھوج لگانے اور ملوث افراد کیخلاف کیونکر کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی۔نجکاری آسان فیصلہ ہے مگر کرپشن کو روکنا ایک بہت بڑاچیلنج ہے اور جب تک اداروں سے کرپشن اور سیاسی اقرباء پروری کو ختم نہیں کیاجائے گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ادارے کو نجکاری کی طرف لے جاناپڑے گا تاکہ مشکل فیصلوں سے آنکھیں بند کرکے آسان حل نکال کر جان چڑائی جاسکے جو کہ حکومتی مہارت نہیں بلکہ ایک اور ناکامی کا ثبوت ہوگا۔