حکومت اپنے کارنامہ گنوانے کے حوالے سے اول روز سے دعوے کرتی آرہی ہے مگر زمینی حقائق سب کے سامنے عیاں ہیں کہ ان دوسالوں کے دوران شاید ہی کوئی ایک وعدہ حکومت نے پور ی کی ہو۔ حکومت کا سارا زور صرف اپوزیشن کوہدف تنقید بنانے پر ہے ،موجودہ ملکی معاشی ابترصورتحال سے لیکر کورونا وائرس تک کا ملبہ اپوزیشن پر ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملتان جلسہ کے دوران حکومت نے جس طرح کی حکمت عملی اپنائی ،اس سے اپوزیشن خبروں کی زینت بنی رہی اور تمام تر کوششوں کے باوجود نہ صرف جلسہ ہوا بلکہ اپوزیشن کی جانب سے اب تک شادیانے بجائے جارہے ہیں۔
اور اب 13دسمبر کو ہونے والے جلسے کی کامیابی کی نوید بھی سنائی جارہی ہے۔ حکومت کو جو کچھ کرنا چاہئے وہاں وقت صرف نہیں کررہا بلکہ ایسا ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے کہ اپوزیشن بمقابلہ اپوزیشن چل رہا ہے دونوں اطراف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے، دوسری جانب اندرونی اور بیرونی چیلنجز پرتوجہ ہی نہیں دی جارہی جوکہ ملکی حالات کیلئے کسی صورت بھی سودمند نہیں۔ بہرحال اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جس طرح حکومت پر برہمی ا ظہار کیا گیا ہے اس سے ناقص حکومتی کارکردگی کھل کر سامنے آرہی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے ملک میں شجرکاری کے متعلق حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ۔
بلین ٹری نامی منصوبے کی تفصیلات طلب کر لیں ۔دریاؤں اور نہروں کے کنارے درخت لگانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہیں پر کوئی درخت نہیں لگایا گیا۔ 10ارب درخت سونامی کے بارے میں ہمیں بتایا جائے۔سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی نے عدالت کو بتایا کہ 430ملین درخت ملک بھرمیں لگا چکے ہیں۔چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ہمیں بتائیں 430 ملین درخت کہاں لگے ہیں؟ وزرات موسمیاتی تبدیلی بلین ٹری کے اخراجات کی رپورٹ جمع کرائے۔
عدالت نے ہدایت دی کہ درخت کہاں لگے، کون تصدیق کرتا ہے؟ بلین ٹری سونامی کی سیٹیلائٹ تصاویر بھی فراہم کی جائیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا رپورٹ جمع کرائیں کہ درختوں کی دیکھ بھال اور تحقیقات کون کر رہا ہے؟430ملین درخت کہاں سے لائے گئے؟چیف جسٹس نے کہا کہ پورے ملک میں مجسٹریٹ بھجوا کر 430 ملین درخت لگنے کی تحقیقات کروائیں گے۔انہوں نے کہا اسلام آباد میں کشمیر ہائی وے اور ایکسپرس ہائی پر کوئی ڈھنگ کا درخت نہیں۔ بغیر ترتیب کے بونے اور ٹیڑھے درخت لگے ہوئے ہیں۔
دنیا میں کتنے خوبصورت پودے سڑکوں کے کنارے لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں سڑکوں کے کنارے جنگل بنا دیا جاتا ہے۔چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اسلام آباد میں درخت لگانے سے متعلق تفصیل نہیں دی گئی، 5لاکھ درخت کہاں لگائے گئے کوئی تفصیل نہیں۔ڈی جی ماحولیات نے عدالت کو بتایا کہ بنی گالہ سمیت مختلف جگہوں پر درخت لگائے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ بنی گالہ میں اپنے گھر میں درخت لگائے گئے ہوں گے۔چیف جسٹس نے کہا خیبرپختونخوا میں لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں، کمراٹ میں بھی لاکھوں درخت کاٹے جاتے ہیں۔
ناران کاغان تو کچرا بن گیا ہے وہاں کوئی درخت نہیں۔ معذرت کے ساتھ خیبر پختونخوا کے محکمہ جنگلات کا سارا عملہ چور ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نتھیا گلی، مالم جبہ اور مری سمیت کہیں درخت نہیں۔ خیبر پختونخواکا بلین ٹری سونامی کہاں ہے؟ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے بتایا کہ بلوچستان میں ان دنوں درخت نہیں لگ سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے بلوچستان میں درخت لگانے ہی نہیں۔معزز جج نے کہا کہ کوئٹہ میں مردار کے پہاڑوں کو درخت لگا کر جاندار بنائیں۔ بلوچستان میں پہاڑوں کو مردار بنا کے چھوڑ دیا گیا۔
ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا کہ مردار کے پہاڑوں پر درخت نہیں لگائے جا سکتے۔ چیف جسٹس نے کہادرخت ہر جگہ لگ سکتے ہیں اگر انکا خیال رکھا جائے۔سیکریٹری جنگلات پنجاب نے بتایا کہ صوبے میں نہروں کے کنارے 25 ہزار کنال پر درخت لگا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب حکومت کی رپورٹ بھی آج جمع ہورہی ہے اب کیا فائدہ؟ عدالت نے حکومت پنجاب کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔سندھ حکومت کی طرف سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے اظہار برہمی کیا۔ سیکریٹری جنگلات سندھ نے بتایا کہ دریاؤں اور نہروں کے کنارے 3 لاکھ 82 ہزار درخت لگائے گئے ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پرائمری اسکول کے بچوں کی طرح بغیر تیاری کے آجاتے ہیں۔ سیکریٹری جنگلات اور ایری گیشن سندھ کے لوگ جیل جائیں گے۔انہوں نے کہا سندھ واحد صوبہ ہے جس کے معاملات اور طرح سے چلتے ہیں، توہین عدالت میں وکیل کو لاکھوں روپے دینا پڑیں گے ساری جمع پونجی ختم ہوجائے گی۔عدالت نے سندھ میں دریاؤں، نہروں، جھیلوں اور ہائی ویز کے ساتھ درخت لگانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے سیکریٹری جنگلات سندھ سمیت متعلقہ غیر حاضر افسران کو توہین عدالت نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
حکومت کی گورننس پر سوالات اعلیٰ عدلیہ اٹھارہی ہے اپوزیشن نہیں، اس لئے بارہا اس جانب توجہ مبذول کرائی جارہی ہے کہ حکومت اپنے گورننس پر توجہ دے پالیسیوں پر نظرثانی کرے کہ کس طرح سے ملک میں معاشی حوالے سے بہتری آسکتی ہے اور جن منصوبوں کے خواب عوام کو دکھائے گئے انہیں کس طرح سے عملی جامہ پہناتے ہوئے کامیابی سے ہمکنار کیا جاسکتا ہے تاکہ عوام کی توجہ حکومتی کارکردگی پر رہے ۔اگر اسی طرح کی روش برقرار رہی تو یقینا عوام بدظن ہو جائینگے اور ظاہر ہے اس کا فائدہ اپوزیشن جماعتیں اٹھائینگی۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ مزید جتنا وقت حکومت کے پاس ہے۔
پچھلی کوتاہیوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں کا ازسرنوجائزہ لیکر عوامی نوعیت کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنی توانائیاں صرف کرے اور ان منصوبوںپر ہنگامی بنیادوں پر کام کرے جن سے ملکی معیشت کو سہارا مل سکے کیونکہ زمینی حقائق سے نظریں نہیںچرائی جاسکتیں۔ اگر اسی طرح حکومت کو چلانے کی پالیسی اپنائی گئی تو اپوزیشن اس کا فائدہ اٹھائے گی اور حکومت پر سوالات اٹھائے جائینگے کیونکہ عوام نتائج چاہتی ہیں دعوے نہیں۔ تمام ترطاقت حکومت کے پاس ہے اسے کہاں پر استعمال کرنا ہے اس کافیصلہ بھی حکومت نے ہی کرنا ہے۔
حکومت اول روز سے درخت لگاؤ مہم کی باتیں کررہی ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ جس طرح سے ملک بھر میںشجرکاری مہم کو کامیاب ہونا تھا وہ نتائج برآمد نہیں ہوئے صورتحال اسی طرح برقرار ہے ۔اب اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے جس طرح کا ردعمل سامنے آیا ہے شاید تبدیلی کے امکانات پیدا ہوسکیں تاکہ دیگر منصوبوں پر حکومت کو تنقید کا سامنانہ کرناپڑے۔ بہرحال اول وآخر بات حکومتی پالیسی پر آتی ہے کہ اپوزیشن کا تعاقب کرنے کی بجائے عملاََ کام کرکے جواب دیاجائے تاکہ اپوزیشن کے وار بھی کم ہوسکیں۔