3نومبر کو امریکی انتخاب سے لے کر آئندہ برس 20جنوری کو نئے صدر کے حلف لینے تک یہ دن بے یقینی کے ہیں۔ جن ریاستوں میں ٹرمپ کے خیال میں بڑی انتخابی دھاندلی ہوئی تھی وہاں بھی ان کے اپنے مقرر کردہ ججوں نے ان کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ اس کے باوجود ٹرمپ اپنی انتخابی فتح پر بضد ہیں۔ اب تو ٹرمپ کے اٹارنی جنرل ولیم بار جیسے قریبی ترین ساتھی بھی ان کے انتخابی دھاندلی کے بیانیے کو اعلانیہ بے سروپا قرار دے چکے ہیں۔ حال ہی میں سامنے آنے والے ٹرمپ کے پیغام پراب کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
جس میں وہ ایف بی آئی، محکمہ انصاف اور داخلی سلامتی جیسے اداروں کو بھی اپنی انتخابی شکست کے لیے سازش کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ بہرحال، بائیڈن اب منصب سنبھالنے کے لیے تیاری کررہے ہیں لیکن اقتدار انہیں منتقل نہیں ہوا۔ فوج سمیت سرکاری محکموں کو ادائیگیاں حکومتی فنڈز سے ہوتی ہیں اس لیے یہ سب 20جنوری تک بلاشبہ ٹرمپ ہی کے فرماں بردار رہیں گے۔ بادل نخواستہ ٹرمپ نے انتخابات کے تین ہفتے بعد اقتدار کی منتقلی کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کی جانب سے انتخابی نتائج کو مسترد کرنے اور انتقالِ اقتدار میں رکاوٹ ڈالنے کی دھمکیوں کو محض مذاق نہیں سمجھنا چاہیے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بائیڈن اگر 8کروڑ ووٹ لے کر کام یاب ہوئے ہیں تو ٹرمپ نے بھی 7کروڑ 30لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ولیم بار جیسے متحمل مزاج ریپبلیکن چاہے کچھ بھی کہتے رہیں ٹرمپ کے 70فی صد ووٹر، جو 5کروڑ امریکی بنتے ہیں، یہی سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ دنیا ٹرمپ کے طرز عمل کو بھلے ہٹ دھرمی سے تعبیرکرتی رہے لیکن اپنے اسی رویے کے بل پر اپنی مدت کے چار سال مکمل کیے ہیں۔ امریکی افواج کے سپریم کمانڈر کے طور پرٹرمپ کے ان آخری دنوں میں کئی خطرات سر اٹھا سکتے ہیں۔
ایران سے ٹرمپ کی عداوت کی وجہ سے کوئی بھی بڑا عالمی خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ ہمارے اس پڑوسی پر ٹرمپ پہلے بھی ایک مرتبہ حملہ ملتوی کرچکے ہیں لیکن اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ انتخابی نتائج کے بارے میں ان کے اندازے کچھ اور ہی تھے۔ ایران میں جو صورت حال پیدا ہوئی ہے اس سے واضح ہے کہ اسرائیل ٹرمپ کے منصب صدارت پر باقی ماندہ دنوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرداں ہے۔ دوسری جانب ایران کے ساتھ سرحدی تنازعات اورایران کی عسکری قوت اور بڑھتی ہوئی جوہری استعداد کو روکنے کے لیے متحدہ عرب امارات امریکا کو اکسا رہا ہے۔
ٹرمپ نے پہلے بھی ایران پر حملے کی دھمکی دی تھی لیکن امریکا کی عسکری قیادت کے محتاط مزاج عناصر نے ان جارحانہ منصوبوں کو تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا۔ امریکا کے اندر پھوٹنے والے احتجاجی مظاہروں کے خلاف فوج کو شہروں میں اتارنے پر ہچکچاہٹ کا مظاہر کرنے والے سیکریٹری دفاع ایسپر کو ٹرمپ نے انتخابات کے چند روز بعد ہی برطرف کردیا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایسپر نے ٹرمپ کے ایران کے خلاف جارحانہ منصوبوں کو بھی روک رکھا تھا۔ تاہم اسرائیل اگر ایران پر حملہ آور ہوتا ہے تو امریکا کو لامحالہ اس لڑائی کا حصہ بننا پڑے گا۔
کیوں کہ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جارحیت کی صورت میں ایران بلاتردد امریکی اہداف کو نشانہ بنائے گا۔ ٹرمپ کے داماد جیراڈ کشنر کے اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ سبھی اپنی اپنی وجوہ کی بنا پر ایران سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ڈکشنر اس آگ کو مزید بھڑکاتا رہا ہے۔ رواں سال 3جنوری کو امریکی ڈرون حملے میں بغداد ایئر پورٹ کے نزدیک ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ بغداد میں عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے ملاقات کے لیے راستے میں تھا۔
سلیمانی ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کی پانچ شاخوں میں سے ایک قدس فورس کا کمانڈر تھا اور اسے ایران میں رہبر معظم آیت اﷲ علی خامنہ ای کے بعد سب سے طاقت ور شخصیت تصور کیا جاتا تھا۔ امریکی ڈرون حملے میں سلیمانی کے ساتھ چار ایرانیوں اور پانچ عراقیوں کی بھی موت ہوئی۔ ان میں عراق کی معروف پاپولر موبلائزیشن فورسز(پی ایم ایف) کا چیئرمین اور ایرانی حمایت یافتہ کتیب حزب اﷲ ملیشیا کا کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی شامل تھا۔ مہندس کو امریکا اور امارات دونوں نے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔
گزشتہ جمعے کو ایرانی ایٹمی سائنسدان اور نائب وزیر دفاع ڈاکٹر محسن فخری زادہ کی کار پر حملے میں ہلاکت ہوئی، اس حملے میں استعمال ہونے والے آلات اسرائیلی ساختہ تھے۔ اگرچہ اسرائیل نے اس کی باضابطہ ذمے داری قبول نہیں کی تاہم ایک دہائی سے اسرائیل ایرانی سائنسدانوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ اسرائیل ایٹمی طاقت ہونے کے باجود کبھی تنقید کی زد میں نہیں رہا بلکہ آئی اے ای اے کے ذریعے اس نے ایران کے جوہری عزائم کو قابو میں رکھا ہے۔ فخری زادہ کے قتل کے بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے تند وتیز بیان میں تنبیہ کی تھی کہ مناسب وقت آنے پر اس کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔
ممکن ہے اس کے لیے واشنگٹن سے اسرائیل کے سب سے بڑے دوست کی رخصتی کا انتظار کیاجائے۔ روحانی نے قابل اعتماد خفیہ اطلاعات کی بنا ہی پر اس قدر سخت بیان دیا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ تہران نے یہ اطلاعات بھی افشا کردی ہیں کہ اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے جاسوسوں نے آئی اے ای اے کی دستاویزات سے فخری زادہ کی تفصیلات حاصل کیں جہاں ایران کی وزارت دفاع کے فزکس ریسرچ سینٹر کے سینیئر سائنسدان کے طور پر فخری زادہ کی نشاندہی کی گئی تھی۔پیر کے روز ایران کی سپاہ پاسدارن کے ایک اور سینیئر کمانڈر مسلم شاہدان کو شام عراق سرحد پر ایک ’’نامعلوم‘‘ طیارے نے نشانہ بنایا ہے۔
ابھی تک اس حملے کی ذمے داری کسی نے قبول نہیں کی۔ یہ حملہ شامی صوبے دیر الزور کے نزدیکی گاؤں میں ہوا ہے جس میں کمانڈر اور اس کے تین محافظوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ ایرانی فوج کا کمانڈر سوائے اس کے اور کیا کررہا ہوگا؟ ایرانیوں کی کھڑی کی گئی عسکریت کے علاوہ وہاںکمانڈر کے موجود ہونے کا اور کیا سبب ہوسکتا ہے۔ 20جنوری تک کے اس عبوری دورانیے میں اشتعال انگیزی کی مزید کارروائیاں کسی کے بھی حق میں نہیں۔ ایرانی صدر روحانی مسلسل اسرائیل کو اشتعال انگیزی کے لیے مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور اس میں بڑی حد تک حقیقت بھی ہے۔
اس کے ساتھ ہی شدید ردعمل کی دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔ ایران میں موجود سخت گیر عناصر فوری انتقام کے خواہاں ہیں جب کہ روحانی نے مناسب وقت پر نپے تلے ردعمل کا اشارہ دیا ہے۔ ایرانی قیادت میں شامل دانش مند عناصر جذبہ انتقام کو ضبط کیے ہوئے ہیں کیوں کہ انہیںمعلوم ہے اسرائیل انہیں اسی لیے مشتعل کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اشتعال انگیزی جاری رہی تو ایران کب تک صبر کرے گا؟ ادھر بائیڈن اعلان کرچکے ہیں کہ وہ ایران سے اس جوہری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں ، ٹرمپ نے جس سے یک طرفہ دست برداری اختیار کرلی تھی۔
اسی لیے اسرائیل 20جنوری سے قبل مزید اشتعال انگیزیوں کے لیے اتائولا ہورہا ہے۔ اس صورت حال کے تناظر میں یہ بات قدرے پُراسرار ہوجاتی ہے کہ ’’چند سیکیورٹی وجوہ‘‘ کو بنیاد بنا کر امارات نے پاکستان سمیت کئی دیگرمسلم ممالک کے ویزوں پر کیوں پابندی عائد کی ہے۔ یہاں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ یواے ای اور بھارت کے مابین دفاعی تعلقات گہرے ہوچکے ہیں۔ ویزا پابندیوں کے بارے میں خیال کیا گیا تھاکہ شاید کورونا وبا کی وجہ سے یہ اقدام کیا گیا۔ لیکن بھارت کو ویزا پابندی سے مستثنیٰ رکھنے کے بعد یہ سوچنا حماقت ہے۔
تو پھر کیا سیکیورٹی وجوہ ہوسکتی ہیں؟ موجودہ حالات میں ایک ہی منظر نامہ ذہن میں آتا ہے کہ اسرائیل ایران پر اب تک کا سب سے زور دار حملہ کرنے کی تیاری کررہا ہے اور ممکن ہے امارات اس کے لیے اپنی فضائی حدود اور ایندھن کی سہولیات اسے پیش کرے۔ امارات کو ایران کے خلاف تشویش ناک تحفظات ہیں اور اسی لیے وہ امریکا سے ایران پر حملے کے لیے اصرار کرتا رہا ہے۔ تاہم امریکا کی عسکری قیادت کے دانشمند عناصر سے یہی توقع ہے کہ وہ کوئی جارحانہ قدم نہیں اٹھائیں گے، یہ الگ بات ہے کہ ایران کی جانب سے کسی اقدام کی صورت میں انہیں بھی میدان میں اترنا پڑے گا۔
تاہم خطے میں امن ہی امارات اور دیگرخلیجی ریاستوں کے حق میں ہے۔ دوسری جانب گزشتہ برس فروری میں پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں ہزیمت کا جواب دینے کے لیے ممکن ہے مودی بھی اس موقعے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔ کورونا کے باعث پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے مودی حکومت کئی مشکلات کا شکار ہے اور گزشتہ دو تین ہفتوں سے بھارت کے کسان بھی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں مودی اس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ بھارتی ٹی وی اینکروں نے رفائل طیاروں کی خوب رٹ لگائی اور انھیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔
یہ کوشش توناکام گئی لیکن سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ لداخ میں چین کے ہاتھوں مودی کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں جنگی جنون کے مارے مودی کے سیاسی ہمنواؤں سے بعید نہیں کہ وہ اپنی بلا ٹالنے کے لیے مودی کو جنگ میں دھکیلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیں۔ ایسا ہوا تو مودی کے لیے اس مشکل میں سے نکلنا محال بھی ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کے دور میں نائب صدر کی حیثیت رکھنے والا ان کا داماد جیرڈ کشنر بخوبی جانتا ہے کہ انہی چند دنوںمیں سب حساب صاف کرنا ہوں گے۔ کوئی ہنگامہ یا انتشار کھڑا کرنا ٹرمپ کے قریبی ترین ساتھیوں کے مفاد میں ہوگا۔
بہت تواتر سے یہ افواہیں گردش میں ہیںکہ ٹرمپ مقدمات سے بچنے کے لیے اپنے اہل خانہ اورخود کو بھی سرکاری معافی دینے کے اعلان کی تیاری کررہے ہیں۔ اس اقدام سے ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھی وفاقی قانون کی گرفت سے تو بچ نکلیں گے لیکن نیویارک میں کیا ہوگا؟ جہاں وفاقی قانون لاگو ہی نہیں ہوتا۔ڈیڑھ ماہ کایہ عرصہ پاکستان اور خطے کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی بری و فضائی افواج کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن کسی بڑی جنگ کے خطرے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے حالات میں چین لاتعلق نہیں رہے گا اور ایسا صرف پاکستان سے دیرینہ دوستی ہی کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ اسے سی پیک کا تحفظ بھی کرنا ہے جو ہمالہ کے دونوں سروں پر چینی حکمت عملی کی اہم ترین کڑی ہے۔ ٹرمپ جاتے جاتے بھی اپنے سخت گیر امیج کو برقرار رکھنے کی کوشش جاری رکھیں گے جب کہ اس وباء سے نکل کر امن اور معیشت کی تعمیر نو باقی دنیا کی ترجیح ہے۔
امید ہی کی جاسکتی ہے کہ اس عالمی بحران کا راستہ روکنے والے لوگ دنیا سے ختم نہیں ہوئے۔ دنیا اور مختلف اتحاد میں سیاسی تبدیلیاں آرہی ہیں اور حالیہ وبا نے عالمی حالات کو معاشی سطح پر یکسرتبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ ڈیڑھ ماہ خطے میں کسی بد امنی کے بغیر گزر بھی جائے تو وبا سے ہونے والی تبدیلیاں جوں کی توں ہی رہیں گی۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)