|

وقتِ اشاعت :   December 10 – 2020

کو ئٹہ: عکس ریسرچ، ریسورس اینڈ پبلیکشن سنٹر اور ورلڈ ایسوسیشن فار کرسچن کمیونکیشن کے اشتراک سے انسانی حقوق کے عالمی دن کی مناسبت سے “کیا میڈیا حساس طریقے سے ریپ پر رپورٹنگ کر سکتا ہے؟”

کے عنوان سے ویبنار کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک بھر سے نامور صحافیوں، میڈیا ہاوسز کے نمائندوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکنان نے شرکت کی تقریب کا مقصد صحافیوں اور میڈیا نمائندوں سے بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے جنسی زیادتی جیسے سنگین جرائم پر رپورٹنگ کے حوالے سیمیڈیا کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کرنا تھا۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے عکس ریسرچ سنٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تسنیم احمر نے ادارے کی مانیٹرنگ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “

یہ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا ریپ کیسز کی یکساں کوریج نہیں کرتا۔ معاشرے میں ہونے والے ریپ کیسز کی تعداد میڈیا کے رپورٹ کردہ ریپ کیسز کی شرح سے کہیں زیادہ ہے ” عکس کی جانب سے جاری کردہ دو ہفتے کی میڈیا مانیٹرنگ رپورٹ میں اس چیز کا احاطہ کیا گیا کے اول تو میڈیا جنرل ریپ کیسز کو پرائم ٹائم کوریج نہیں دیتا جب تک کہ وہ کیس مختلف وجوہ کی بنا پر ہائی پروفائل کیس بن کر حکام بالا اور عوام کی توجہ کا مرکز نہ بن جائے، اور اگر وہ ریپ کیس رپورٹ کرتا ہے تو استعمال کی گئی صحافتی زبان پر مغز اور بامعنی نہیں ہوتی۔

اس موقع پر ویبنار میں شریک معروف خاتون صحافی اور ٹی وی اینکر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ ریپ کیسز کی رپورٹنگ کے حوالے سے میڈیا کا رویہ مثبت تبدیلی کی جانب گامزن ہے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے۔ ٹی وی اینکرز کو سیاسی موضوعات کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور خاص کر عورتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر بھی گفتگو کرنی چاہیے۔ ” ایڈیٹر ڈان اخبار ظفر عباس نے خواتین کے حوالے سے تشدد کے خلاف میڈیا میں بڑھتی آگاہی میں ادارہ عکس کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ میڈیا کے ریپ کیسز پر رپورٹنگ کے معیار میں مثبت اور تعمیری بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

لیکن اب بھی اس موضوع پر بہت کام کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ بہت سے ریپ کیسز وقت کی کمی کی وجہ سے میڈیا کوریج سے محروم رہ جاتے ہیں، اگر ادارہ عکس اپنے طور پر وقوع پزیر ہونے والے تمام ریپ کیسز کے اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ وقتا فوقتا میڈیا نمائندگان کے لئے جاری کرتا رہے تو یہ عمل مزید بہتری کا ضامن ہو سکتا ہے۔

معروف ٹی وی اینکر اور پروگرام’ ذرا ہٹ کہ ‘ کے میزبان ضرار کھوڑو نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بعض اوقات میڈیا وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے بہت سے ریپ کیسز رپورٹ نہیں کر سکتا، لیکن میڈیا اینکرز اور سوشل فین فالونگ رکھنے والے افراد کو اپنے طور پر اس موضوع پر گفتگو کرتے رہنا چاہیے، انہوں نے ادارے کی جانب سے منعقد کردہ ویبنار کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسی تعمیری بحثیں وقت کی ضرورت ہیں۔

ڈرامہ رائٹر اور تھیٹر سے منسلک بی گل نے اس بات پر زور دیا کے ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کو ایسی معاشرتی اور اخلاقی مدد فراہم کی جانے چاہیے کہ وہ بغیر کسی ڈر اور خوف کے ظلم و جبر کے سامنے ڈٹ جائیں، آج نیوز پشاور کی بیورو چیف فرزانہ علی نے کہا کہ ریپ کیسز کی رپورٹنگ کے لئے معاشرتی دباو دیکںنے میں آتا ہے، انہوں نے کہا میڈیا کورپوریشنز ریٹنگ بڑھانے کے لئے عورت کی کمزور تصویر سامنے لانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔

جو کہ ایک منفی عمل ہے جس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے،۔ ہیومن رائٹس کمیشن سے تعلق رکھنے والی زہرہ یوسف نے کہا کہ ریپ جیسا قبیح عمل کرنے والوں کا آنلائن ڈیٹا بنایا جانا چاہپیے ، تاکہ عوام الناس ان کے بارے میں آگاہی حاصل کر سکیں اور محتاط رہیں۔ویبنار کے شرکا نے عورت کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد پر عکس کی مثبت کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ میڈیا ریپ جیسے سنگین جرائم کے حوالے سے رپورٹنگ کے دوران اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرے اور اس معاشرتی مسئلے کو بھی دیگر مسائل کی طرح اجاگر کرے۔

ڈائریکٹر عکس تسنیم احمر نے ویبنار کے شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ادارہ عکس بڑھتے ریپ کیسز کے خلاف عوامی حلقوں اور میڈیا کمیونٹی میں آگاہی پھیلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اور انہوں نے شرکا کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئیعکس ریسرچ سنٹر کی جانب سے ریپ کیسز کے حوالے سے ماہانہ میڈیا واچ جاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔