|

وقتِ اشاعت :   January 22 – 2015

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ بلوچستان کے خراب حالات کے ذمہ داروں نے اب تک اپنی نیت اور ذہنیت تبدیل نہیں کی،ہمارے بال سفید ہوگئے لیکن مثبت تبدیلی نہیں آسکی ،بلوچستان کے اہل قلم اور دانشور ہی بتاسکتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کہاں ہے ، بلوچستان میں ترقی و خوشحالی کی گونج صرف اسلام آباد سے سنائی دے رہی ہے ، بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کے اسلام آباد میں انعقاد سے معلوم ہوتا ہے کہ صوبے کے مالک مسائل کے حل سے زیادہ وفاق کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں، سینئر صحافی صدیق بلوچ نے بلوچستان کے حقوق اور محرومیوں کے ازالہ کیلئے جدوجہد اور کاوشیں کسی تعریف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار کوئٹہ پریس کلب میں ممتاز صحافی سینئر تجزیہ کار کراچی پریس کلب کے سابق صدر اور روزنامہ بلوچستان ایکسپریس ،روزنامہ آزادی کے ایڈیٹر صدیق بلوچ کی کتاب ’’ Balochistan it\’s Politics and Economics‘‘ کی تقریب رونمائی سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے کتاب کے مصنف صدیق بلوچ، سینئر صحافی و تجزیہ کار انور ساجدی، حاجی سلیم شاہد، شہزادہ ذوالفقار ، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمان ،منظور بلوچ اور شہزاد بلوچ نے بھی اظہار خیال کیا۔ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض شاعر و ادیب وحید زہیر نے سرانجام دیئے ۔تقریب میں نیشنل پارٹی کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، سابق رکن قومی اسمبلی عبدالرؤف مینگل کے علاوہ مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے نمائندے، کوئٹہ پریس کلب، بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے عہدے داران اور صحافیوں کی بڑی تعداد بھی موجودتھی۔بی این پی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کتاب کے مصنف سے اپنے دیرینہ تعلق کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ صدیق بلوچ کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل، غوث بخش بزنجو، اکبر خان بگٹی نیب کے دیگر عہدے داروں کے ہمراہ ملاقاتوں کیلئے کراچی میں واقع نارتھ ناظم آباد میں رہائشگاہ پر تشریف لاتے ۔ حیدرآباد سازش کیس کے وقت کئی بار اپنے والد کے ساتھ بھی حیدرآباد جاکر ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ لالہ صدیق بلوچ کی کاوشیں کسی تعریف کی محتاج نہیں ، انہوں نے بلوچستان کے مسائل کو اپنے قلم کے ذریعے اجاگر کیا اور آج بھی بیماری کی حالت میں بلوچستان کے مسائل کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھائے ۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان میں پڑھنے ، پڑھانے اور سب سے زیادہ سمجھنے کا فقدان ہے۔ بلوچستان میں چاہے سیاسی کارکن ہو یا قیادت، صرف اخبار کی سرخیاں پڑھنے تک محدود رہتے ہیں ۔ بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ صدیق بلوچ نے اپنی کتاب کے ذریعے جن مسائل کو اٹھایا ہے ، جن قوتوں کے پاس ان مسائل کا حل موجود ہیں کیا ان کے سامنے بین بجانے کا کوئی فائدہ ہوگا ۔ ایسا نہیں لگتا کہ وہ بلوچستان کے مسائل کے بارے میں کتاب میں دی گئی تجاویز کو سمجھ سکیں گے ۔ درحقیقت لفظ بلوچ بلوچ اور بلوچستان ادب کی کتابوں میں شجرممنوعہ ہوچکاہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں لالاہفتورام کی بلوچستان پرلکھی گئی تاریخی کتاب کوبھی دکانوں سے ضبط کیا گیا حالانکہ اس میں موجودہ حکمرانوں اور ان کے گناہوں کا ذکر تک نہیں ۔ جس تحریر اور جس کتاب میں بلوچ اور بلوچستان کا ذکر ہو اسے برداشت نہیں کیا جاتا۔ اس صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کے ذمہ داروں کا مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا، یہ جوں کا توں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین نے بلوچستان کے حقوق کے حصول کیلئے جیلیں کاٹیں، کوڑے کھائے ۔ون یونٹ کے خلاف اگرہم صف اول میں نہیں توکسی سے پیچھے بھی نہیں تھے مگر جب ثمر لینے کا وقت آیا تو لطف اندوز دوسرے ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں نے کورے کاغذپردستخط کردیئے ہیں اب اس پرچاہیں ظلم ستم،ننگ وناموس کچھ بھی لکھ دیاجائے وہ لکھنے والوں کی مرضی پر منحصر ہے۔انہوں نے کہا کہ آج صدیق بلوچ جیسے دانشور جو بہت مشکل سے اخبار چھاپتے ہیں اور تھوڑے بہت ملنے والے پر اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب کی رونمائی کیلئے بلوچستان کو چنا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ صوبے کے حکمرانوں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اسلام آباد کے فائیو اسٹار ہوٹل میں بلوچستان ڈویلپمنٹ فورم کا انعقاد کیا شاید وہ یہ تاثردیناچاہتے ہیں کہ بلوچستان نوگوایریاہے یا پھر وہ بلوچستان کو اس قابل نہیں سمجھتے ۔ یا ان کے خیال میں یہاں جگہ اتنی محدودہے کہ باہرسے آنے والوں کورکھانہیں جاسکتا۔اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ درحقیقت ان کااپناضمیرہی مطمئن نہیں۔اسلام آباد کے مہنگے ہوٹل میں بیٹھ کرناجانے یہ حکمران بلوچستان کی کونسی پسماندگی کے خاتمے کیلئے ہلکان ہورہے ہیں ۔بلوچستان میں ترقی لانے کی گونج صرف اسلام آباد سے سنائی دے رہی ہے ۔اصل میں حکمران اسلام آباد میں جشن مناکرانہیں خوش کریں گے توٹھیک اگرناراض کیاتوحالت ہماری جیسی ہوگی ۔بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ ہر علاقے کی اقتصادیات کا دارومدار اس علاقے اور خطے کی سیاست اور قیادت پر ہوتا ہے بلوچستان وسیع تر رقبے کے باوجود بھی حقیقی طور پر اتنی آبادی نہیں رکھتا کہ حکمرانوں کے پیمانے پر پورا اترسکے ۔ہمارے وسائل چاہے زیر زمین ہے یا پانی اور خشکی پر یا پھر طویل ترین ساحل میں حکمرانوں کیلئے دلکشی ہے لیکن صوبے کو صرف سٹرٹیجک حوالے سے دیکھا جاتا ہے ۔پہلے دور میں سیاح جاسوسی کا کام کرتے اب سیاستدانوں کے کردار میں بھی ایسا دکھائی دے رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے یہاں جو ترقیاتی کام کئے وہ بھی شورش کے خطرہ سے نمٹنے کے لئے کئے ان کی جانے کے بعد ایک انچ ریلوے ٹریک نہیں بچھایا گیا بلکہ جو ریلوے اسٹیشنز تھے انہیں کھنڈرات میں تبدیل کرکے بند کردیا گیا ۔ آر سی ڈی شاہراہ بنانے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے حکومتیں تبدیل ہوئیں مگر آج بھی یہ مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔ بلوچستان کو سیاسی اور فوجی حکومتوں نے کبھی اہمیت ہی نہیں دی ۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں کو گیس یا کسی ترقیاتی منصوبے کی فراہمی میں یہ بہانا تراشا جاتا ہے کہ منصوبے پر اربوں روپے لاگت آئے گی اور مستفید ایک چھوٹی آبادی ہوگی ۔ یہاں ماضی کا حوالہ دیا گیا میں پوچھتا ہوں ہمارا حال کیا ہے حال اور ماضی کو مد نظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کا مستقبل بھی اچھا نہیں ہوگا ۔ انگریز دور کے بعد ترقی کاکوئی کام نظر نہیں آیا، اس دور کے فعال ریلوے اسٹیشن کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ،آر سی ڈی شاہراہ آج تک مکمل نہیں ہوئی، اس دورکی سڑکوں کوپیوند لگاکرٹھیک کیاجارہاہے ۔ اسٹرٹیجک مفادات کے علاوہ کوئی ترقیاتی کام نہیں کیا گیا ۔اختر مینگل نے کہاکہ ہم ماضی کی حکومتوں کو کوس رہے ہیں ، ماضی اورحال کاموازنہ کیاجائے تومستقبل کوئی روشن نظر نہیں آرہا، ترقی کے جودعوے کئے جارہے ہیں اصل میں ترقی صرف قبرستانوں میں ہورہی ہیں ۔ یتیموں اور بیواؤں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان حالات میں ہمارے پاس کون سے راستے رہ گئے ہین ۔ ہم دانشوروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں کہ ہمارا مستقبل یہاں یا پھر کہیں اور ہے۔ یہاں تو ہم نے 64سال گزار دیئے لیکن انہیں دانشور کے قلم کی سیاہی برداشت نہیں ہوئی ،انہوں نے اس قلم کوخون آلودہ کردیاجوہرلفظ پرکھ کرلکھتاتھاانہیں ہم جیسے سیاسی کارکنوں کی باتیں کہاں برداشت ہوں گی جو جذبات میں آکر سوچے بغیر کہہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہم کوئی مثبت تبدیلی نہیں دیکھ رہے کیونکہ 64سالوں سے جس مثبت تبدیلی کی امیدلگائے بیٹھے تھے اس میں ہماری اکابرین کی عمریں گزر گئیں اور ہمارے بال سفید ہوگئے مگر حکمرانوں کی نیت اور سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ ہم نے ان تمام مشکلات کے باوجود اپنی حیثیت کے مطابق جدوجہد کی ۔ اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے پرویز مشرف دور سے لے کر آج تک بی این پی نے ساٹھ کارکنوں اور قیادت کی قربانی دی۔ ان لاشوں کا بوجھ اٹھانا ہمارے لئے مشکل ہیں لیکن اس کے باوجود ہم نے بلوچستان میں سخت ترین اپوزیشن کا کردارا دا کیا اور ادا کرتے رہیں گے۔ اب شاید لوگ بھی ہمارے اس تلخ اور کڑوے پن پر مبنی رویے سے اکتا چکے ہیں ۔سردار اختر مینگل نے آکر میں ایک بار پھر صدیق بلوچ کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کی اور مبارکباد پیش کی کہ بیماری کے باوجود بھی انہوں نے کتاب کے ذریعے بلوچستان کے مسائل کو اجاگر کیا ۔ کتاب کے مصنف لالا صدیق بلوچ نے کہا کہ میری کتاب کا مقصد بہت سارے مسائل کو اجاگر کرکے معاملات کو نمایاں کرنا تھا ، گیس ریونیو کے لئے نواب اکبر بگٹی کے دور میں مہم چلائی گئی ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں پہلے 90 اور بعد میں 50 کے عشرے سے اس کا مطالبہ ہوا میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ یہاں کی گیس سے 4 ارب ڈالر کے تیل جو اس وقت 6 ارب ڈالر بنتی ہے کی بچت ہوئی ہے بلوچستان کی گیس ناروال تک پہنچ گئی لیکن خضدار کے عوام اس سہولت سے مستفید نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سیکورٹی زون ہے عام صوبہ نہیں ، انگریز نے اپنے دور میں قلات کو فتح کرنے کے بعد سیکورٹی زون بنا کر یہاں باہر سے آنے والوں پر پابندی لگائی جو آج تک ایک سو ستر سال گزرنے کے باوجود قائم ہے ۔یہاں ہر معاملے کو سیکورٹی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے اس لئے ملکی میڈیا میں یہاں کی حالات بارے بلیک آؤٹ ہے ۔ تیل کے انٹرنیشنل روٹس گوادر کے قریب ہیں اس لئے 50 امریکہ جہاز یہاں کھڑے ہیں کوئی بھی ایک واقعہ بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ۔ بلوچستان کی گھمبیر اور خراب صورتحال کا کسی کو احساس تک نہیں ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی اسی فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں برابری کی سطح پر ملک بھر میں ترقیاتی کام ہوئے ، سڑکیں بچھائی گئیں جبکہ پاکستان میں صوبوں کے ساتھ امتیازبرتا گیا ۔ پنجاب کی ترقی پر سالانہ پندرہ سو ، دو ہزار ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں جبکہ بلوچستان میں دو تین سال قبل تک صرف چند ارب ملتے تھے۔ بلوچستان کو پاکستان کا آدھا حصہ کہا جاتا ہے لیکن ترقی کا نام و نشان نہیں جب تک بلوچستان ترقی نہیں کرے گا تو ملک کیسے ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔ صدیق بلوچ نے کہا کہ انہوں نے اپنی کتاب کے ذریعے بلوچستان کے اقتصادی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔صدیق بلوچ نے تقریب میں شرکت پر اختر مینگل اور دیگر شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینئرصحافی انور ساجدی نے کہا کہ وہ صدیق بلوچ کو ستر کی دہائی سے جانتے ہیں انہوں نے بلوچستان کیلئے توانا کردار ادا کیا ہے اور اس سرزمین کا حق ادا کردیا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرکے بلوچستان کو عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بنادیا گیا ہے ، اس سرزمین کو عملاً ایٹمی تجربہ گاہ بنادیا گیاہے ۔صوبے میں ڈیموکرافت تبدیلی کیلئے شروع سے ہی سازشیں کی گئیں۔ آبادی کا توازن بگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ہم ایسی ترقی نہیں چاہتے ۔ نہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں بلوچستان کے دانشور لالہ صدیق بلوچ کی طرح غور و فکر کریں ۔ بلوچ دو ہزار سالہ جدوجہد کی تاریخ رکھتا ہے لیکن کبھی بھی اتنے طاقت ور لوگوں سے واسطہ نہیں پڑاجتنا آج ہے ۔ چند نشستوں کی سیاست کو بالاتررکھ کر ہمیں قوم اور اپنی سرزمین کی بقاء کی جنگ لڑنا ہوگی۔ سینئر صحافی سلیم شاہد کا کہنا تھا کہ صدیق بلوچ نے سخت مشکلات کا سامنا کیا لیکن کبھی اپنے مؤقف پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے غوث بخش بزنجو کا دور اقتدار میں پریس سیکریٹری کے طور پر ساتھ دیا تو اقتدار کھونے کے بعد جیل میں بھی ان کا ساتھ دیا۔ تقریب سے خطاب میں شہزاد ذوالفقار کا کہنا تھا کہ صدیق بلوچ نے ہمارے خیالات کی پختگی میں کردارا دا کیا، انہوں نے حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں مشکلات جھلیں لیکن کبھی اپنے مؤقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ صدیق بلوچ نے اپنی کتاب میں گورننس، حکومت کی کمزوریوں، بلوچستان کے مسائل اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی نشاندہی کی ہے ۔ منظور بلوچ نے کتاب کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ 12ابواب پر مشتمل اس کتاب میں بلوچستان کے تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ صوبے کی سیاست، اقتصادی حالت، پسماندگی، انتظامی انارکی، گوادر پراجیکٹ،پاک ایران، پاک افغان سرحدپراسمگلنگ، افغان مہاجرین جیسے مسائل پر دلیل کے ساتھ قلم اٹھایا ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی پسماندگی کے پیچھے کارفرما عناصر کو واضح کیا ہے ۔ترقیاتی منصوبوں اور فنڈز میں بلوچوں کو نظر انداز کرنے ، تعلیمی اداروں میں میرٹ کے نام پر بلوچوں کے ساتھ نا انصافیوں ، گیس قیمتوں کی مد میں بلوچستان کے ساتھ امتیازی اسلوک کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ کتاب میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ گزشتہ دس سالوں کے دوران چھوٹے بڑے تقریباً چھ قدرتی آفات میں نقصانات کا کم تخمینہ لگا کر وفاق نے تنگ نظری کا ثبوت دیا اور ان نقصانات کے ازالے کیلئے عالمی امداد کی اپیل بھی نہیں کی گئی۔ کتاب میں بیورو کریسی کے عوام دشمن رویے کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے ۔ شہزاد بلوچ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دس سالوں سے صدیق بلوچ کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں بلوچستان کی سیاسی ، اقتصادی مسائل سمیت ہر پہلوکا احاطہ کیا ہے یہ کتاب بلوچستان کے بارے میں جاننے کی جستجو رکھنے والے ہر شخص کو پڑھنی چاہیے۔