بلوچستان کی ترقی کے بلندوبانگ دعوے ہر دور میں حکومتیں کرتی آئی ہیں ،مختلف پیکجز کا اعلان کرنے باوجود آج بھی بلوچستان کے مسائل اسی طرح برقرار ہیں اور ان میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں آج بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد بیروزگاری کی وجہ سے پریشان ہے ،روزگار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے انہیں پیٹرول وڈیزل جیسے کاروبار کرنے پڑتے ہیں ۔بڑی یونیورسٹیوں سے ڈگری حاصل کرنے والے طلباء بھی اس عمل کا حصہ مجبوراً بن جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ روزگار کے مواقع کا نہ ہونا ہے اور کس طرح سے روزگار کے ذرائع پیدا ہونگے ۔
جب یہاں صنعتیں لگانے پر توجہ ہی نہیں دی جاتی دیگر ایسے شعبوں پر سرمایہ کاری نہیں کی جاتی کہ جس سے نہ صرف نوجوانوں کو روزگار مل سکے بلکہ صنعتی شعبے کو ترقی مل سکے۔ بدقسمتی سے وفاقی حکومتوں نے کبھی بھی بلوچستان کو ترقی کے حوالے سے اپنی ترجیحات میں نہیں رکھا اگر اس بدقسمت صوبہ کی تقدیر بدلنی ہوتی تو چند میگامنصوبوں سے بلوچستان کو ا س کا جائزحصہ دے کر یہاں بہت کچھ کیا جاسکتا تھا۔سی پیک، ریکوڈک، سیندک سے حاصل شدہ رقم بلوچستان کو دی جاتی تو بلوچستان کی صوبائی حکومتیں کبھی بھی وفاق کی طرف کچکول لے کر نہیں دیکھتیں۔
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں جب بارشوں کے بعدتباہی ہوئی تو اس کے بعد وزیراعظم نے کراچی کا دورہ کرکے وہاں ایک پیکج دیا ،پھر گزشتہ روز لاہور کیلئے ایک بڑے پیکج کا اعلان کیا گیا حالانکہ کراچی اور لاہور کا موازنہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے کیاجائے تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی اور لاہور کی نسبت کوئٹہ میں بنیادی سہولیات سمیت شاہراہوں کی صورتحال کیا ہے۔ اندرون بلوچستان میں تو لوگ ہر قسم کی سہولیات سے محروم ہیں باوجود اس کے کہ خطے میں گیم چینجرمنصوبہ بلوچستان کے پاس ہے۔
مگر انہی منصوبوں سے ملک کے دیگر حصوں کو ترقی دی جارہی ہے ،ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام تک دیگر صوبوں کے حصہ میں آیا اور یہاں کے لوگ کراچی کوئٹہ شاہراہ کو دورویہ کرنے کا رونا عرصہ دراز سے رو رہے ہیں مگر اس حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے جارہے۔ اس شاہراہ پر ہر ماہ سینکڑوں افراد جان کی بازی ٹریفک حادثات کی وجہ سے ہار جاتے ہیں یہ ایک انٹرنیشنل روٹ ہے جسے نظراندازکیا گیا ہے اسی سے حکمرانوں کے رویوں اور نیت کو پرکھاجاسکتا ہے۔ حال ہی میں جنوبی بلوچستان پیکج کا اعلان کیا گیا اور اس کا ڈھول اس قدر پیٹاجارہا ہے کہ جیسے اس سے بہت بڑا انقلاب برپا ہوگا۔
خدا کرے کہ عملاََ ایسا ہو مگر تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے ،محض اعلانات اور دعوؤں سے یہاں کے لوگوں کو خوش کیاجاتا ہے جبکہ صوبائی حکومت میں شریک وزراء بیانات کے ذریعے تعریف بٹورنے لگتے ہیں اور اسی جنوبی بلوچستان پیکج پر خود حکومتی وزراء کریڈٹ لینے کے چکر میں ایک دوسرے پر بیانات کے ذریعے وار کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے بہت بڑا احسان کرکے عوام کی زندگی میں خوشحالی لانے کیلئے انقلابی اقدام اٹھایا گیا ہے۔ بہرحال بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملک کی ترقی کیسے ممکن ہوسکتی ہے کیونکہ ملک کا نصف حصہ جب پسماندگی کا شکار ہو تو حکمرانوں کی ملکی ترقی کی باتیںاس کی عملی طور پر نفی کرتی ہیں۔
کیونکہ زمینی حقائق سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں۔ بلوچستان کے عوام کا شکوہ ہمیشہ وفاق سے یہی رہا ہے کہ انہیں صرف ان کے اپنے وسائل پر اختیار دیاجائے مگر المیہ یہی رہا ہے کہ یہاں کی صوبائی حکومتوں نے بھی ہمیشہ سمجھوتہ کرکے اپنی حکمرانی کو ترجیح دیکر گروہی وذاتی مفادات حاصل کئے اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار پر خاموشی اختیار کی۔ آج پورے ملک میں ترقیاتی منصوبے جابجانظر آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں عوام بنیادی سہولیات کی فراہمی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اور وہ بھی پورے ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہے جس پر حکمرانوں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے کہ بلوچستان کے ساتھ جاری ان زیادتیوں کا ازالہ کرتے ہوئے اس کو اپنے وسائل پر جائز حق دیتے ہوئے یہاں کی عوام کے گلے شکوے دور کیے جائیں تاکہ بلوچستان بھی اس ترقی کے دوڑ میں ملک کے دیگر صوبوں کے برابر آسکے۔